
اکثر نومولود بچوں کی مائیں ان کو سلانے کے بعد اپنے ادھورے کاموں کو سمیٹنے میں مصروف ہوجاتی ہیں مگر پھر اچانک بچوں کے رونے کی آواز پر سب کچھ چھوڑ کر اُس کو دوبارہ سلانے اور خاموش کروانے میں لگ جاتی ہیں جس میں بعض اوقات انہیں کافی وقت بھی لگ جاتا ہے۔
یونیورسٹی آف سوات میں زیر تعلیم نوجوان محمد شاہد خان نے ماؤں کی اس مشکل کو حل کرنے اور بچوں کو جھولے میں پرُسکون رکھنے کے لئے نومولود بچوں کے لیے ایک ایسا جھولا تیار کیا ہے جو بچے کے رونے پر خود بخود جھولنے لگتا ہے۔ سینسرز سے مزین اس جھولے کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہ تین منٹ بعد خود بخود جھولنے لگتا ہے۔ اس جھولے میں اسپیکر اور لائٹس موجود ہیں اور اسپیکر کے ذریعے اذان اور قرآن کی تلاوت بھی خود بخود ہوتی ہے۔

سوات کے علاقے لنگر خوازہ خیلہ سے تعلق رکھنے والے شاہد خان نے انڈیپینڈنٹ نیوز کو بتایا کہ ان کی یونیورسٹی میں کچھ عرصہ قبل مصنوعی ذہانت پر ایک سیمینار ہوا تھا، جس میں نت نئے خیالات پر گفتگو ہوئی۔ اس وقت سے میرے دل میں خواہش تھی کہ ایک ایسی چیز بناؤں جو سوات کے لوگوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو۔ شاہد خان نے بتایا کہ یہ جھولا میں نے ایک سال کی محنت سے بنایا اور اس پر تقریباً 30 ہزار تک کا خرچہ آیا۔

شاہد خان نے مزید بتایا کہ جھولا بنانے میں مالی طور پر ان کے والد اور چچا نے معاونت کی۔ اس سال بھی یونورسٹی کے شانگلہ کیمپس کے طلبہ نئے خیالات پر کام کر رہے ہیں لیکن ان کی معاونت کرنے والا کوئی نہیں، مجھ سمیت اگر دیگر طلبہ کو حکومت یا ٹیکنالوجی کے ادارے سپورٹ کریں تو نئی چیزیں بنیں گی اور ٹیلنٹ بھی ابھر کر سامنے آئے گا۔

اس موقع پر شاہد خان کا کہنا تھا کہ لوگ ان سے جھولا بنانے کے لیے رابطے کر رہے ہیں لیکن ان کے پاس مالی وسائل نہیں۔انہوں نے بتایا کہ اگر یہ جھولا بازار میں فروخت کیا جائے تو اس کی قیمت 50 ہزار روپے ہوگی۔
بلاشبہ سائنس و ٹیکنالوجی کی دنیا دن بہ دن ترقی کررہی ہے، اس شعبے میں تحقیق کے ذریعے انسانی زندگی کو آسان بنانے کے لئے حیرت انگیز تجربات کئے جارہے ہیں۔فخر کی بات یہ ہے کہ سائنس کی اس دنیا میں مغرب کی طرح پاکستانی بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ اس سے قبل بھی خیبرپختوانخواہ میں سوات کے ضلع مالم جبہ سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم نے نابینا افراد کے لیے اسمارٹ شوز تیار کئے جو 120 سینٹی میٹر کے دائرے میں آنے والی کسی بھی رکاوٹ کےبارے میں صارف کو وائبریشن اور آواز کےذریعےپہلے سے آگاہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔نابینا افراد کے لیے بنائے گئے ان جوتوں میں ٹرانسمیشنز لگائے گئے ہیں اور اس کی بیٹری سولرسسٹم سے چارج کی جاسکتی ہے۔
خیبرپختونخوا کے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سائنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سربراہ ساجد شاہ نے بھی وصی اللہ کے کام کو سراہا تھا۔
علاوہ ازیں ، چنیوٹ کے طالب علم عصمت اللہ محدود وسائل میں صرف کتابوں اور ویڈیوز کی مدد سے 5 فٹ کا ریموٹ کنٹرول جہاز بنایا جو فضا میں 3 کلومیٹر کی حدود اور ہزار فٹ بلندی تک اڑسکتا ہے۔ عصمت اللہ کے اہل خانہ سمیت علاقے مکین بھی ان کی اس ایجاد پر نہایت خوش ہیں ، جب وہ اپنا ایجاد کیا ہوا یہ جہاز فضا میں اُڑتے ہیں تو اردگرد کے سارے لوگ اکٹھا ہوجاتے ہیں اوراس جہاز کو اُڑتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
Courtesy: Independent Urdu
0 Comments