
پاکستان میں سرکاری اداروں میں اپنی ملازمت سے سبکدوش ہونے والے ملازمین کو پنشن کے حصول میں مشکلات درپیش رہتی ہیں ، ان پنشنروں میں زائد تعداد بزرگوں کی ہے جنہوں نے اپنی جوانی میں وطن عزیز کے مختلف شعبوں میں خدمات سر انجام دیں، اور اب ضعیفی و بزرگی کی حالت میں پہنچ کر ان کو اپنی سروس کے عوض ملنے والی پنشن کی وصولی میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے حمید گل جو 2003 میں اپنی سروس سے ریٹائر ہوئے تھے آج 2021 میں 18 برس گزرنے کے بعد بھی اپنی پنشن اور مراعات کے حصول کے لیے پریشان ہیں۔

78 سالہ حمید گل محکمہ پولیس میں 1961 میں بطور سپاہی بھرتی ہوئے اور 2003 میں بطور سب انسپکٹر (ایس آئی) ریٹائر ہوئے اور اب وہ ایئرپورٹ پولیس کوارٹرز میں رہائش پذیر ہیں۔اس ریٹائرڈ پولیس افسر کو صرف رشوت نہ دینے کے سبب اپنی پنشن اور دیگر مراعات کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑرہی ہیں۔
“اگر دس ہزار روپے رشوت نہیں دی تو تمہارا وہ حال کریں گے کہ ساری زندگی روگے۔”یہ الفاظ تھے اکاؤنٹنٹ اور شیٹ برانچ کے اہلکاروں راجہ اصغر ، صفدر اور عزیز کے جن کے پاس حمید گل اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد سروس شیٹ لینے پہنچے تھے۔حیرت طلب بات یہ ہے کہ ان افسران نے اپنا کہا سچ بھی کر دکھایا۔

اپنی رہائش گاہ پر ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ریٹائرمنٹ کے وقت وہ خواجہ اجمیر نگری ہیڈکوارٹرز میں تعینات تھے جب وہ اپنے ریٹائرمنٹ کے کاغذات پورے کرنے کی غرض سے متعلقہ برانچ پہنچے تو وہاں موجود مذکورہ تینوں اہلکاروں نے ان سے 10 ہزار روپے بطور رشوت طلب کیے جو انہوں نے دینے سے انکار کردیا۔ حمید گل کا کہنا ہے کہ پوری نوکری جب میں نے ایمانداری سے کی اور کبھی بھی کسی بھی کام کے لیے نہ رشوت دی اور نہ ہی کبھی کسی سے رشوت لی تو پھر اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد میں کسی کو اور وہ بھی اپنے ہی محکمے میں تعینات پولیس اہلکاروں کو رشوت کیوں دوں، ان کا کہنا تھا کہ ان پولیس اہلکاروں نے اپنا کہا سچ کر دکھایا اور آج تک مجھے پنشن نہیں مل سکی، میں ریٹائرمنٹ کے 18 برس بعد بھی پنشن بلکہ دیگر مراعات سے محروم ہوں۔ حد تو یہ ہے کہ اپنی سروس کی مدت پوری کرنے کے باوجود ان سے تمام پے سلپ بھی مانگی جارہی ہے
اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے چند برس قبل صوبائی محتسب میں درخواست دی تو تقریباً 4 سال کی طویل جدوجہد کے بعد اب اے جی سندھ میں کیس پہنچ گیا ، اے جی سندھ کی جانب سے ان سے 1961 سے 2003 تک یعنی پوری سروس کے دورانیے کی پے سلپ طلب کی گئی ہے۔ حمید گل نے اسے غیر منطقی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اے جی سندھ کا یہ حکم نامہ میرے لیے انتہائی تکلیف دہ اور بالکل غیرمنطقی ہے ، اصولی طور پر تو یہ سارا ریکارڈ محکمے کے پاس ہوتا ہے اور محکمے سے ہی طلب کیا جاتا لیکن الٹا مجھے کہا جارہا ہے کہ میں محکمے میں اپنی ملازمت کو ثابت کروں۔
حمید گل کا کہنا تھا کہ 1961 کے بعد بھی کئی برس تک ان کو پے سلپ نہیں ملتی تھی تو اس وقت کا ریکارڈ وہ کہاں سے لائیں ؟ ان کے مطابق یہ سراسر زیادتی اور ظلم کی آخری حد پار کرنے والی بات ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے خود بھاگ دوڑ کرکے اپنی سروس بک ڈپلی کیٹ بنوائی اور وہ جمع کرائی لیکن برسوں کی دوڑ دھوپ کا اب یہ صلہ مل رہا ہے کہ پہلی تنخواہ سے لے کر آخری تنخواہ تک کی پے سلپ طلب کرلی گئی ہیں۔
اپنی پنشن اور مراعات کے حصول کے لئے حمید گل ارباب اختیار کی طرف دیکھ رہے ہیں انہوں نے آئی جی سندھ مشتاق مہر اور ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن سے پرزور اپیل کی ہے کہ وہ ان کی درخواست کا جائزہ لیں اور انہیں انصاف فراہم کریں۔
Story Courtesy: Express News
0 Comments