جسمانی صحت کے ساتھ دماغی طور پر صحتمند ہونا بھی نہایت ضروری ہے ، اس سلسلے میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اپنی جاری کردہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ دنیا بھر میں تقریباً ایک ارب لوگ ذہنی امراض کی کسی نہ کسی قسم میں مبتلا ہیں۔ ان تازہ ترین اعداد وشمار اس حوالے سے اور بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ان ایک ارب افراد میں سے ہر ساتواں شخص نوجوان ہے نیز کورونا وائرس کی وباء کے پہلے سال میں ڈپریشن اور بے چینی جیسے مسائل کی شرح میں 25 فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔
اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ہر ایک فرد کی زندگی کسی نہ کسی کی ذہنی صحت کو متاثر کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اچھی ذہنی صحت، اچھی جسمانی صحت کی عکاس ہوتی ہے اور یہ نئی رپورٹ ہمارے رویوں میں تبدیلی کو ناگزیر بناتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ذہنی صحت اور صحت عامہ، انسانی حقوق اور سماجی اقتصادی ترقی کے درمیان تعلق کو ختم نہیں کیا جاسکتا جس کا مطلب ہے کہ ذہنی صحت کے حوالے سے پالیسی اور حکمت عملی کو تبدیل کرنا چاہیے تاکہ ہر جگہ افراد، کمیونٹیز اور ممالک کو حقیقی اور اہم فوائد میسر آسکیں۔
انہوں نے کہا کہ ذہنی صحت کے لیے سرمایہ کاری سب کے لیے بہتر زندگی اور مستقبل میں سرمایہ کاری کے مترادف ہے۔اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت نے مزید ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ بگڑتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاری کریں۔
اس رپورٹ میں عالمی ادارہ صحت نے 2019 کے تازہ ترین دستیاب عالمی اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کورونا وباء کی آمد سے پہلے ہی ذہنی صحت کے علاج کے ضرورت مند افراد کے صرف ایک چھوٹے سے حصے کو مؤثر، سستی اور معیاری سہولیات تک رسائی حاصل تھی۔ ڈبلیو ایچ او نے مثال پیش کی کہ دنیا بھر میں نفسیاتی امراض میں مبتلا 70 فیصد سے زائد افراد کو وہ مدد نہیں ملتی جس کی انہیں ضرورت ہے۔ امیر اور غریب ممالک کے درمیان فرق صحت کی دیکھ بھال تک غیر مساوی رسائی سے بھی نمایاں ہوتا ہے، زیادہ آمدنی والے ممالک میں نفسیاتی بیماری کے شکار ہر 10 میں سے 7 افراد علاج کروا لیتے ہیں جبکہ کم آمدنی والے ممالک میں یہ شرح صرف 12 فیصد ہے۔
اس کے علاوہ ڈپریشن کے علاج کے حوالے سے زیادہ آمدنی والے ممالک سمیت تمام ممالک میں ڈپریشن کے شکارصرف ایک تہائی افراد کو باقاعدہ ذہنی صحت کی دیکھ بھال ملتی ہے۔رپورٹ کے مطابق زیادہ آمدنی والے ممالک 23 فیصد کیسز میں ڈپریشن کا ’کم سے کم مناسب‘ علاج فراہم کرتے ہیں لیکن کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں یہ شرح محض 3 فیصد ہے۔
سربراہ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ہمیں دماغی صحت کے حوالے سے آگاہی اور اس کی حفاظت کے لیے اپنے رویوں، عمل اور طریقہ کار کو تبدیل کرنے اور اس حوالے سے ضرورت مند افراد کی مدد اوران کی دیکھ بھال کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم اپنی ذہنی صحت پر اثرانداز ہونے والے ماحول کو تبدیل کرکے اور کمیونٹی کی سطح پر ذہنی صحت کی عالمی سہولیات کی رسائی دے کر ایسا کرسکتے ہیں اور کرنا چاہیے۔
مزید برآں ، پاکستان میں بھی پریشان کن حالات، غربت، بے روزگاری، دہشت گردی، امن و امان کا مسئلہ، مہنگائی، اور اس جیسے کئی مسائل لوگوں کو مختلف ذہنی پیچیدگیوں میں مبتلا کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر ابتداء میں ہی ذہنی و نفسیاتی امراض کی تشخیص کرکے ان کا مناسب علاج کیا جائے تو ان پر قابو پایا جاسکتا ہے بصورت دیگر یہ خطرناک صورت اختیار کرسکتے ہیں۔
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…