آج بھی اگر ہمارے ملک میں کوئی لڑکی اکیلے ملک سے باہر سفر کرنے کا ذکر کرے تو کئی لوگوں کی بھنویں چڑھ جاتی ہیں اور سوالات کا ایک لاتعداد سلسلہ ہوجاتا ہے ، کئی طرح کے تحفظات اور خدشات لاحق ہوجاتے ہیں کہ کس کے ساتھ جا رہی ہو، کیوں جارہی ہوں، وہاں کس کے پاس رہو گی وغیرہ وغیرہ اور اگر ایک عام لڑکی کے بجائے کوئی ایسی لڑکی جو جسمانی طور پر معذور ہو، سیر کے لیے کسی دوسرے ملک اکیلے جانا چاہے تو سوچیے پھر لوگوں کا کیا ردِعمل ہو گا؟ ایسے میں وہیل چیئر پر تین معذور خواتین نے پاکستان سے مصرکا سفر کر کے سب کو حیران کر دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی بغیر کسی مددگار کے وہیل چیئر پر ان تینوں بہادر خواتین کی سفر کی تصویریں خوب شئیر ہورہی ہیں ۔ان میں سے ایک کا نام تنزیلہ ہے جن کا تعلق لاہور سے ہے، افشاں پشاور سے ہیں جبکہ زرغونہ کوئٹہ میں رہتی ہیں۔ معذوری نے ان تینوں کو آپس میں بہترین دوست بنا دیا۔ ان تینوں نے فروری سے منصوبے بنانے شروع کیے، واٹس ایپ پر ایک گروپ بنایا، اور کئی ممالک کے بعد انہوں نے سیاحت کے لئے مصر کا انتخاب کیا۔ اس ٹرپ کو پلان کرنے میں انہیں پانچ مہینے لگے مگر ان تینوں بہادر خواتین نے کسی ٹریول ایجنٹ کی خدمات نہیں لیں اور سب انتظامات خود کیا۔ ایک نے تینوں کے کاغذات اکھٹے کرکے ویزے لگوائے، ہر جگہ بکنگ کروائی، تین بار ان کی ٹکٹیں کیسنل ہو گئیں۔
انہیں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور آخر کار اسلام آباد میں اکھٹے ہوئیں جہاں سے انہوں نے مصر کی فلائٹ پکڑی۔ تینوں خواتین کے اہل خانہ نے ہمیشہ ہر قدم پر انہیں سپورٹ کیا ہے اور اس سفر پر جانے سے پہلے بھی ان کے خاندان انہیں اسلام آباد ائیر پورٹ چھوڑنے آئے۔
بی بی سی اردو نے وہیل چیئر پر پاکستان سے مصر تک کے سفر کرنیوالی تینوں خواتین سے بات چیت کا اہتمام کیا۔ 30 سالہ تنزیلہ نے بتایا کہ وہ بچپن سے معذور ہیں، گھٹنوں سے نیچے میری ٹانگیں ہیں ہی نہیں اور میں نے پوری زندگی وہیل چیئر ہر گزاری ہےلیکن اب تک وہ اسی ویل چیئیر پر دنیا کے 20 ممالک گھوم چکی ہیں۔اکیلے سفر کرنے کے فیصلے کے متعلق وہ بتاتی ہیں کہ میں چاہتی تھی ایک مثال قائم کردوں کہ معذور لڑکی کسی کی محتاج نہیں ہوتی، وہ خودمختار ہو سکتی ہے، اپنے فیصلے خود لے سکتی ہے۔ تنزیلہ سماجی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی دو کمپنیاں چلا رہی ہیں، انہوں نے یونیورسٹی آف لندن سے انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ میں بیچلرز کر رکھا ہے۔ وہ ایک پبلک اسپیکر اور معذور افراد پر بننے والی ایک فلم اور کئی منصوبوں کا بھی حصہ ہیں۔
تنزیلہ کے مطابق ٹریولنگ ان کا شوق ہے اور وہ وہ اپنے سفر کی تصاویر اور ویڈیوز شئیر کرتی ہیں تاکہ ان کے ذریعے دوسرے معذور افراد کی حوصلہ افزائی کریں اور ان کے گھر والے بھی ان کا ویسے ہی ساتھ دیں جیسے تنزیلہ کے اہلِ خانہ انہیں سپورٹ کرتے ہیں۔ یہ تنزیلہ کا بیرونِ ملک کا پہلا سفر نہیں۔ وہ مصر جانے سے قبل 19 ممالک کا دورہ کر چکی ہیں مگر ان کی والدہ ہمیشہ ان کے ہمراہ موجود ہوتی تھیں۔ اس سال تنزیلہ نے پہلی مرتبہ اکیلے ترکی کا سفر کیا۔
تنزیلہ کی تصاویر دیکھ کر افشاں اور زرغونہ نے ان سے رابطہ کیا کہ مل کر کسی ملک کی سیر کو چلتے ہیں۔بغیر کسی مددگار کے اکیلے سفر کا تجربہ اتنا اچھا رہا کہ تنزیلہ نے فیصلہ کیا ہے اب سے آگے وہ اکیلے ہی سفر کریں گی۔
بتیس سالہ افشاں پشاور میں رہتی ہیں، بچپن میں انہیں پولیو ویکسین نہ کروائے جانے کے وجہ سے 22 سال کی عمر میں ان کے جسم کا 75 فیصد حصہ اپاہج ہو گیا تھا۔ فزیو تھراپی سے ان کی صحت کچھ حد تک بحال ہوئی اور اب وہ کم از کم ویل چئیر پر بیٹھ سکتی ہیں۔ اکیلے سفر کرنے کے فیصلے کے متعلق وہ کہتی ہیں کہ معذور عورتوں کو اکثر ترس کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ کہیں نہیں جا سکتیں، میں نے سوچا کیوں نہ دنیا کو دکھائیں کہ اگر حوصلہ ہے تو کچھ ناممکن نہیں اور معذور خواتین کیسے دوسرے ملکوں کا سفر کر سکتی ہیں اور کن گائیڈ لائنز پر عمل کرسکتی ہیں۔ انہوں نے مائیکروبیالوجی میں بی ایس آنزر کر رکھا ہے اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر معذور افراد کے لیے بنائے جانے والے کئی منصوبوں کا حصہ ہیں۔ مختلف اداروں میں معذور خواتین کی شرکت کو یقینی بنانا ان کے کام کا حصہ ہے۔
یہ افشاں کا بھی پہلا سفر نہیں وہ اس سے پہلے کانفرنس اور ورکشاپس وغیرہ کے لیے چھ ممالک کا دورہ کر چکی ہیں تاہم اس سب دوروں میں وہ گروپس کا حصہ تھیں یا ان کے ساتھ کوئی موجود ہوتا تھا۔
پٹھان گھرانے سے تعلق رکھنے والی 36 سالہ زرغونہ سات ماہ کی تھیں جب انھیں پولیو کا اٹیک ہوا اور وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئیں پوری زندگی میں محسوس نہیں کر پائی کہ چلنا پھرنا کیسا ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے میں اکیلے کوئٹہ سے اسلام آباد یا کراچی تک بھی نہیں گئی اور میرے ساتھ کوئی نہ کوئی اٹینڈنٹ ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ کوئٹہ میں بھی کہیں جاؤں تو کسی کو ساتھ لے کر جانا پڑتا ہے۔ یہ ان کا پہلا سفر تو نہیں تو مگر اکیلے پہلا سیاحتی دورہ ضرور ہے۔ اس سے پہلے وہ گروپس کے ساتھ مختلف کاموں کے سلسلے میں تین ممالک کا دورہ کرچکی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ تنزیلہ اور افشاں کو دیکھ کر میری بہت حوصلہ افزائی ہوئی اور میں نے بھی اکیلے سفر کی ہمت کی کہ اگر یہ دونوں اکیلے سفر کر سکتی ہیں تو میں کیوں نہیں۔
انہوں نے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز اور ایل ایل بی کر رکھا ہے اور معذور افراد کے لیے کام کرنے والی سوشل ایکٹویسٹ ہیں اور اپنی آرگنائزیشن بھی چلاتی ہیں۔
عام لوگوں کی نسبت ان تینوں کے لیے یہ سفر آسان نہیں تھا، انہوں نے بتایا کہ مصر میں معذور افراد کے لیے سہولیات کا فقدان ہے۔ جب انہوں نے ائیر پورٹ پر لینڈ کیا تو سامان کا کوئی اتا پتا نہیں تھا، ویل چیئرز بہت دیر سے آئیں، باتھ روم گئے تو پانی ہی نہیں تھا اور ہم تینوں اکیلے ہی ادھر سے ادھر جارہی تھیں۔ ایک گاڑی میں وہیل چئیرز نہیں آ سکتیں تھیں لہذا دوسری گاڑی منگوانی پڑی، لوگوں کو وہیل چئیرز فولڈ نہیں کرنی آرہی تھیں اور ٹوٹنے کا خطرہ تھا اور ہمیں آگے بڑھ کر خود ہی اپنی وہیل چیئرز فولڈ کرنی پڑ رہیں ، ساتھ میں پاسپورٹ اور پی سی آر اور دیگر کاغذات مانگے جا رہے تھے۔
تاہم ان تینوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب تک ہوٹل سے لے کر ڈارئیوروں اور سیر کے مقامات پر انتظامیہ، سبھی نے ان سے بہت تعاون کیا ہے۔ابھی یہ تینوں شرم الشیخ میں ہیں اس سے قبل وہ الیگزینڈریہ اور قاہرہ کا دورہ کر چکی ہیں۔
ان تینوں باہمت معذور خواتین کے مطابق اللہ نے انسان کو بہت طاقت دی ہے اور اسے اس طاقت کو استعمال کرتے ہوئے کچھ اچھا کرنا چاہیے اور اسے ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔ مستقبل میں یہ تینوں مزید ممالک کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ اور بھی معذور خواتین کو اپنے سفر میں شریک کریں۔
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…