انسانیت کیا ہے؟ انسانیت نہ تو کسی رشتے کا نام نام ہے اور نہ ہی کسی تعلیم کا نام ہے، یہ تو محض ایک احساس کا نام ہے، جو ایک انسان کے دل میں دوسرے انسان کے لئے ہوتا ہے، جو دماغ اور زہن میں بس یہی خیال پیدا کرتا ہے کہ سامنے والے کیا گزر رہی ہوگی۔ لیکن افسوس ہمارے معاشرے میں کچھ درندہ صفت حیوان آج بھی موجود، جو ناصرف اپنے آپ کو زمینی خدا تصور کرتے ہیں، بلکہ وہ دیگر انسان کو انسان سمجھنے سے بھی قاصر ہیں، اگر کوئی ان کے خیالات سے مختلف نہیں گویا اسے جینے کا اگر کوئی حق ہی نہ ہو۔
ایسا ہی ظلم و بربریت کا ایک انسانیت سوز واقعہ حال ہی میں صوبہ پنجاب کے شہر ساہیوال میں پیش آیا، جس نے دیکھنے والوں کی تو رو کو جھنجوڑ کر رکھ دیا لیکن افسوس کے ساتھ ظلم وستم کا بازار گرم کرنے والوں کے دل میں رحم نہ آیا، بااثر افراد نے محض ایک بزرگ شہری پر محض اس لئے تشدد کیا کہ مظلوم شہری نے بیٹی کے ساتھ ہونے والی چھیڑ چھاڑ کی شکایت پولیس کو کی تھی۔
تفصیلات کے مطابق پچھلے دو تین دن سے سوشل میڈیا پر ساہیوال کے نواحی گاؤں 43 فور ایل کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے، جس میں دیکھ جاسکتا ہے کہ چند بااثر افراد کی جانب سے ایک بزرگ شہری کو کتے کا پٹہ ڈالا ہوئے ہے، اور اس پر بےپناہ تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، اس دوران اسے ناصرف زمین چاٹنے پر مجبور کیا گیا بلکہ بربریت کی انتہائی اس وقت ہوئی جب اسے کتے کے کھانے والے برتن میں پانی پلایا گیا۔
واضح رہے پاکستان میں یہ کوئی اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے، اس طرح کے واقعات افسوس کے ساتھ ہمارے معاشرے میں ہم نے کئی مواقع پر دیکھے ہیں، لیکن جب اس واقعے کی حقیقت سامنے آئی تو یقیناً یہ بحیثیت انسان ہم سب کے لئے ایک انتہائی شرم کا مقام تھا، کیونکہ بتایا جارہا ہے کہ اس بیچارے کسان جس کا نام غلام رسول ہے ، اس نے زمیندار اور وڈیرے زمان مدھول کے خلاف شکایت علاقائی تھانے میں اس لئے جمع کروائی تھی کہ اس کی جانب سے اس کی بیٹی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا رہی تھی، جس پر زمیندار کے لوگوں نے غریب کسان کو اسلحہ کے زور پر اغواء کیا اور ظلم و بربریت کا بازار گرم کردیا۔
اس بیچارے غریب کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنی بیٹی کے محافظ ہونے کی ذمہ داری کی، جوکہ ان بااثر افراد کو بہت ناگوار گزری۔
جوں ہی یہ واقعہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، لوگوں کی جانب سے ناصرف واقعے کی مذمت کی گئی بلکہ بااثر افراد کے خلاف آواز بھی بلند کی گئی۔ بعدازاں جب واقعہ کی اطلاع اعلی سطحی عہدیداروں تک پہنچی تو مجرمان کے خلاف فوری کارروائی کا حکم دیا گیا ۔ جس پر اب پنچاب پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے ملزم کو حراست میں لیکر گرفتار کرلیا ہے۔
ًخیال رہے شاید یہ ملزم اپنی جرم کی سزا حاصل ہے یا شاید ملزم کچھ جتن کرکے مقدمے سے بری ہوجائے، لیکن یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر کیوں ہم تھوڑے دن بعد ایک ایسا واقعہ دیکھتے ہیں، کیونکہ یہ مسئلہ ہمارے معاشرے کی جڑوں میں جا بیٹھا ہے، کیونکہ ہمارے اندر سے احساس نام کی چیز ختم ہوگئی ہے، آخر ہم آج تک یہ جاگیردارانہ اور وڈیرانہ نظام ختم کیوں نہیں کرسکیں ہیں، کیونکہ کوئی ایک شخص اپنے آپ کا اس جگہ کا حکم سمجھنے لگتا ہے؟ یہ سوال میرے اور آپ کے لئے قابل غور ہے کیونکہ یہ ایک واقعہ سوشل میڈیا پر آگیا، ایسے اور کتنے واقعات ہوتے ہیں ہونگے، جس کا کسی کو پتہ بھی نہیں لگنے دیتے ہونگے یہ درندہ صفت افراد۔
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…