شاعری کسی بھی زبان کا حسن کہلاتی ہے، ہماری قومی زبان اردو ہے اور اس میں ہونے والی شاعری دنیا میں اپنا ایک الگ مقام رکھتی ہے۔ اردو زبان نے شعری کی دنیا میں کئی بڑے نام متعارف کروائے ہیں۔ جنہوں نے اپنے خوبصورت کلام کے زریعے ناصرف اردو زبان کو مزید وسعت دی بلکہ اردو زبان کی خوبصورتی کو بھی مزید چار چاند لگائے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ آج ہماری قومی زبان ہونے کے باوجود ہم اس زبان کی تعمیر اور ترقی میں نہ تو کوئی فعال کردار ادا کر رہے ہیں اور نہ ہی ماضی کے بہترین کاموں سے مستفید ہورہے ہیں۔
جی ہاں ۔۔ اور اس کی مثال حال ہی میں ایک نجی ٹی چینل پر دیکھی گئی، جہاں مشہور ومعروف شاعر جون ایلیاء کے ایک شعر کو لیکر بحث کا آغاز ہوتا ہے، جس میں پروگرام کے میزبان ساحر لودی اور جج صاحبان جون ایلیاء کے درست شعر کو غلط قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل پر ایک رمضان ٹرانسمیشن جاری تھیں، جن میں بیت بازی کے مقابلے انعقاد تھا، اس دوران ایک پارٹیسیپنٹ کی جانب سے جون ایلیاء کا ایک مشہور شعر کہا گیا، جس پر پروگرام کے میزبان ساحر لودھی نے حیرانی کا اظہار کیا اور شریک پارٹیسیپنٹ کو روک دیا اور شعر میں غلطی کی نشاندہی کی۔ جس پر پارٹیسیپنٹ نے ابتداء میں درست ہونے کی دعویٰ کیا، لیکن میزبان مسلسل نہ ماننے پر اس نے دوسرا شعر پڑھنے کی درخواست کی۔
ایک لمحے کو میزبان ساحر لودھی کی غلطی کو نظر انداز کردیا جائے تو بات آتی ہے، مقابلے کے جج صاحبان کی، جنہوں نے ابتداء میں خاموشی رکھی اور بعد میں پارٹیسیپنٹ کے ادا کردے شعر پر تحفظات کا اظہار کرنے لگے، لیکن جج ہونے کے باوجور رد نہیں کر رہے تھے، کیونکہ انہیں خود سے بھی ٹھیک سے نہیں ہتہ تھا، اور افسوس کے ساتھ وہ ایک مقابلے میں انصاف کے منصبِ پر براجمان ہیں۔
واضح رہے جیسا کہ یہ بات ہم سب کے علم میں ہے کہ پاکستان میں پچھلے کئی عرصے سے ٹی وی چینلز پر رمضان المبارک میں خصوصی نشریات کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں کئی پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں، جن میں ایک بیت بازی، تقریری مقابلے، اور دیگر پروگرام شامل ہوتے ہیں۔ اگرچے یہ ایک اچھی کوشش ہے کیونکہ ملک میں ان پروگرام کے انعقاد کی واضح کمی ہے۔ لیکن پروگرام کے ذریعے معیار کو گرانا یقیناً سب کے لئے ناقابل قبول ہے۔
جوں ہی اس پروگرام کی ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، عوام کی جانب سے ٹی وی میزبان ساحر لودھی سمیت پروگرام کے ججز کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ کسی کی جانب سے شعر کے ٹھیک ہونے کی تصدیق کی گئی تو کسی نے پروگرام کے منتظمین کی اہلیت پر سوالات کھڑے کئے۔
یقیناً آج کے دور میں عوام کا لٹریچر، شعری وغیرہ میں اتنی دلچسپی نہیں ہے، جتنی ماضی میں ہوا کرتی تھی، اس سلسلے میں حکومت کو چاہئے کہ وقتاً فوقتاً اس طرح کے پروگرام سرکاری سطح پر کروائے جائیں تاکہ موجودہ نسل کے اندر بھی اس چیزوں کی دلچسپی پیدا ہو اور ہماری قومی زبان دنیا میں مزید ترقی کرے۔
بلاشبہ جمہوری معاشروں میں تنقید زندہ معاشرے کی نشانی تصور کیا جاتا ہے، لہذا اس غلطی پر آواز بلند کرنا اور تنقید برائے اصلاح ہم سب کا حق ہے، لیکن اس کی آڑ میں کسی شخصیت پر ذاتی نوعیت کے حملے کرنا یقیناً ایک خراب ہے، جس اجتناب ضروری ہے۔
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…