Categories: کتابیں

تاریخ اسلام میں حق و باطل کا پہلا تاریخ ساز معرکہ غزوۂ بدر

سترہ رمضان المبارک مقام بدر میں تاریخ اسلام کا وہ عظیم الشان یادگار دن ہے جب اسلام اور کفر کے درمیان پہلی فیصلہ کن جنگ لڑی گئی جس میں مشرکین کی طاقت کا گھمنڈ خاک میں ملنے کے ساتھ اللہ کے مٹھی بھر نام لیواؤں کو وہ غلبہ نصیب ہوا جو آج تک مسلمانوں کے لئے فخر کا باعث ہے۔ قرآنِ مجید میں اس معرکہ کو ’’یوم الفرقان‘‘ (یعنی حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے دن) بھی کہا گیا ہے۔ تیرہ سال تک کفار مکہ نے محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے، ان کا خیال تھا کہ مُٹھی بھر یہ بے سرو سامان “سر پھرے” بھلا ان کی جنگی طاقت کے سامنے کیسے ٹھہر سکتے ہیں، لیکن قدرت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا۔

حضور اکرم صلؔی اللہ علیہ وآلٖہ وسلؔم 12 رمضان المبارک کو اپنے تین سو تیرہ (313) جاں نثار ساتھیوں کو ساتھ لے کر میدانِ بدر کی طرف روانہ ہوئے۔ جب یہ لشکر مدینہ طیبہ سے تھوڑی دور پہنچا تو آپؐ نے اس کارواں میں شامل جو کم سن اور نوعمر تھے، انہیں واپس فرما دیا۔ حضرت عمیر بن ابی وقاص کم سن سپاہی تھے، انہیں جب واپسی کے لیے کہا گیا تو وہ رو پڑے، حضور اکرمؐ نے ان کا یہ جذبہ جہاد و شوقِ شہادت دیکھ کر انہیں جہاد میں شامل رہنے کی اجازت عطا فرما دی۔

اِس غزوہ میں مسلمانوں کی تعداد 313 تھی جن میں ستتر (77) مہاجرین تھے اور دو سو چھتیس (236) انصار تھے۔ جبکہ اِس غزوہ میں مسلمانوں کے پاس صرف 2 گھوڑے ، 70 اُونٹ 6 زرہیں اور 8 شمشیریں تھیں ۔ یہ قافلہ لمبی مسافت طے کرکے ’’بدر‘‘ کے مقام پر پہنچا، بدر ایک گاؤں کا نام ہے، جہاں ہر سال میلہ لگتا تھا۔ یہ مقام مدینہ طیبہ سے تقریباً اسی (80) میل کے فاصلے پر ہے، جہاں پانی کے چند کنویں تھے اور ملک شام سے آنے والے قافلے اسی مقام پر ٹھہرا کرتے تھے۔

سترہ رمضان المبارک، جمعتہ المبارک کے دن جنگ بدر کی ابتداء ہوئی ، اس جنگ میں جھنڈا شیرِ خدا حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا جس کا رنگ سفید تھا۔ نہتے مسلمانوں کی مشرکین سے حق وباطل کی اس جنگ کا آغاز صبح ہوا جو ظہر تک جاری رہا۔ دین اسلام میں اس معرکہ کی اہمیت اس لئے اتنی زیادہ ہے کہ یہ معرکہ ایثار اور جان بازی کا سب سے حیرت انگیز منظر تھا کیونکہ دونوں فوجیں جب آمنے سامنے آئیں تو خود ان کے جگر کے ٹکرے تلوار کے سامنے ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے (جو اب تک کافر تھے) میدان جنگ میں بڑھے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تلوار کھینچ کر نکلے۔

عتبہ قریش کا سپہ سالار میدان میں آیا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو عتبہ کے فرزند تھے اس کے مقابلے کو نکلے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تلوار ماموں کے خون سے رنگین ہوئی تھی۔ جب کہ مسلمانوں کی ایذا رسانی کرنیوالا ابو جہل بھی قتل ہوا، انصار میں سے معاذ اور معوذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو عفراء کے بیٹے تھے ان دونوں بھائیوں نے دوران جنگ ابوجہل پر بھرپور وار کیا اور اسے قتل کردیا۔ ان دونوں بھائیوں نے نے عہد کیا تھا کہ وہ ابوجہل کو قتل کر دینگے یا خود مٹ جائیں گے۔

اس حوالے سے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں صف میں تھا کہ دونوں بھائیوں نے مجھ سے کان میں پوچھا کہ ابوجہل کہاں ہیں؟ میرا اشارے سے بتانا تھا کہ “وہ رہا” دونوں بھائی باز کی طرح جھپٹے اور 70 سالہ ابوجہل خاک پر تھا۔آپؐ کا شدید دشمن اُمیہ بن خلف بھی جنگ بدر میں شریک تھا جس کو حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ نے قتل کیا۔ غزوہ بدر میں مسلمانوں کو اللہ کی خاص مدد و نصرت حاصل تھی ،ایک موقع پر جب حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ کی تلوار ٹوٹ گئی تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے لکڑی کی لاٹھی دی جس نے تلوار کا کام کیا۔

اس غزوہ میں مسلمانوں میں صرف 14 جانثاروں نے جام شہادت نوش کیا جن میں 6 مہاجر اور باقی انصار تھے لیکن دوسری طرف قریش کی اصل طاقت ٹوٹ گئی ،قریش میں بہادری میں مشہور اور قبائل کے سپہ سالار تھے، ایک ایک کر مارے گئے۔ اِن میں عتبہ، ابو جہل، ابوا لبختری، زمعہ بن الاسود ، عاص بن ہشام ، امیہ بن خلف ، عتبہ بن الحجاج قریش کے سردار تھے ، اس جنگ میں 70 کافر ہلاک اور 74 گرفتار ہوئے۔ اِن تین سو تیرہ (313) میں سے آٹھ صحابہ اکرام وہ تھے جو کسی عذر کی بنا پر میدانِ بدر میں حاضر نہ تھے مگر اموالِ غنیمت میں اُن کو حصّہ عطا فرمایا گیا۔ اُن میں سے تین مہاجرین تھے‘ ایک امیر المومنین حضرت سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے جو حضور کے حکم سے اپنی زوجہ حضرت سیّدہ بی بی رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی علالت کی وجہ سے تیمار داری میں رُکے تھے۔ دوسرے حضرت سیّدنا طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت سیّدنا سعید بن زیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے جو مشرکین مکہ کے قافلے کی جستجو میں گئے تھے ۔اِن کے علاوہ پانچ انصار تھے۔

کفار سمیت دشمنان اسلام سب حیرت زدہ تھے کہ کس طرح تین سو پیدل آدمیوں نے ایک ہزار جن میں سو سواروں کو شکست سے دوچار کیا۔ اگر ان دونوں جماعتوں کا موازنہ کیا جائے تو مسلمانوں کے پاس کچھ نہ تھا سوائے اللہ کی مدد کے، قریش کی تعداد ایک ہزار تھی، مسلمان صرف 313 تھے، قریش میں سو سوار تھے، مسلمانوں کی فوج میں صرف دو گھوڑے تھے۔

مسلمانوں میں بہت کم سپاہی تمام ہتھیاروں سے لیس تھے جبکہ اُدھر قریش کا ہر سپاہی لوہے میں غرق تھا۔لیکن اللہ کی خاص فتح ونصرت سےمسلمانوں نے اپنے سے تین گنا بڑے لاؤو لشکر کو اس کی تمام تر طاقت کے ساتھ خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا۔ یہی مسلمانوں کی اصل طاقت تھی جو ظاہری اسباب سے آذاد تھی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ جنگیں جیتنے کیلئے پختہ ایمان کا ہونا سب سے ضروری ہے۔

Ahwaz Siddiqui

Recent Posts

ملیریا ایک جان لیوا بیماری

دنیا بھر میں ہر سال 25 اپریل کو ملیریا کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔…

3 days ago

ہیٹ ویو کی خبر پڑھتے ہوئے نیوز کاسٹر بے ہوش

بھارت کے نیشنل براڈکاسٹر دور درشن کے بنگالی زبان کے چینل کی نیوز اینکر نشریات…

5 days ago

ہانیہ عامر ذہنی دباؤ کا شکار

پاکستان کی شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ ہانیہ عامر نے انکشاف کیا ہے کہ وہ…

7 days ago

خلیل الرحمن قمر نے عدنان صدیقی سے مکھی اور عورت کے بارے میں بات کی

معروف ڈرامہ رائٹر خلیل الرحمان نے عدنان صدیقی کو فون کیا اور اس حوالے سے…

1 week ago

آرام کرنے کا مشورہ ، یاسر حسین اور اقرا عزیز کے ہاں دوسرے بچے کی پیدائش متوقع؟

پاکستان کے معروف اداکار جوڑی یاسر حسین اور اقرا عزیز کے ہاں دوسرہ بچہ ہونے…

2 weeks ago

ایک دن میں کتنی بار چہرہ دھونا چاہیے؟

چہرہ ہمارے جسم کے دیگر حصوں سے زیادہ حساس ہوتا ہے اس چہرے کا خیال…

2 weeks ago