آپ کے خیام میں کوئی بھی غیرملکی کسی دوسرے ملک کے ائیرپورٹ پر کتنی دیر تک رہ سکتا ہے؟ ایک گھنٹہ، دس گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ ایک دن؟ کیونکہ اسکے بعد وہ خود کو وہاں اجنبی محسوس کرنے لگے گا مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایران سے تعلق رکھنے والا ایک شخص پیرس کے چارلس ڈیگال ایئر پورٹ پر 18 سال تک مقیم رہااور وہیں دل کا دورہ پڑنے کے باعث انتقال کرگیا۔
اس شخص کا نام مہران کریمی نصیری تھا اور ان کی پیدائش 1945ء میں ہوئی تھی۔ وہ 1974ء میں تعلیم کے حصول کے لیے برطانیہ گئے مگر وطن واپسی پر انہیں سیاسی نظریات کے باعث جلاوطن کردیا گیا۔ انہوں نے یورپ کے کئی ملکوں میں سیاسی پناہ کی درخواست دی۔ پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر (یو این ایچ سی آر) نے پناہ گزین کی حیثیت دے دی لیکن ناصری کا کہنا تھا کہ وہ بریف کیس جس میں ان کے پناہ گزین ہونے کا سرٹیفکیٹ تھا، وہ پیرس کے ریلوے سٹیشن پر چوری کر لیا گیا۔
بعد ازاں، فرانس کی پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا لیکن انہیں ملک بدر کرنے میں ناکام رہی کیوں کہ ان کے پاس کوئی سرکاری دستاویز نہیں تھی۔وہ 1988ء میں میں چارلس ڈیگال ایئرپورٹ پہنچے اور وہیں مقیم ہوگئے۔اس کے بعد افسر شاہی کی عدم توجہ اور امیگریشن کے سخت ہوتے قوانین کی وجہ سے وہ کئی سال تک ایسی جگہ رہائش پذیر رہے جہاں قانونی طور پر رہنے کی اجازت نہیں ہے۔
بالآخر جب انہیں پناہ گزین کی حیثیت سے دستاویزات مل گئیں تو انہوں نے ایئر پورٹ چھوڑنے پر عدم تحفظ کا اظہار کیا۔ انہوں نے مبینہ طور پر پناہ گزینی کی دستاویزات پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا اور نتیجتاً مزید کئی سال تک ایئرپورٹ میں قیام پذیر رہے۔ حتیٰ کہ 2006ء میں اس وقت باہر نکلے جب بیماری کے باعث انہیں اسپتال منتقل کیا گیا۔2007ء میں انہیں ایک مرکز منتقل کیا گیا اور 2008ء سے پیرس کے ایک شیلٹر ہوم میں مقیم رہے مگر اس کے بعد ایک بار پھر وہ ائیرپورٹ واپس لوٹ آئے۔پیرس ائیرپورٹ اتھارٹی کے مطابق مہران کریمی گزشتہ چند ہفتوں سے ایک بار پھر ائیرپورٹ میں رہنے لگے تھے اور وہی ان کا انتقال ہوا۔
اتنے سال ائیرپورٹ پر رہنے کی وجہ سے مہران کریمی کو ‘سرالفریڈ’ کے نام سے جانا جاتا تھا، وہ ائیر پورٹ پر پلاسٹک کے بینچ پر سوتے اور ایئرپورٹ عملے کے واش روم میں نہاتے، ڈائری لکھتے، رسائل پڑھتے اور آتے جاتے مسافروں کو دیکھتے رہتے۔ائیرپورٹ میں ان سے ہمدردی رکھنے والے افراد انہیں خوراک اور طبی سہولیات فراہم کرتے تھے۔انہوں نے اپنے اس تجربے پر ایک کتاب ‘دی ٹرمینل مین’ بھی تحریر کی تھی۔ان کے انتقال پر ائیرپورٹ کے ایک ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ برسوں تک محدود جگہ پر رہنے کے نتیجے میں ان کی جسمانی اور ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوئے تھے۔لگ بھگ 2 دہائیوں کے قیام کے دوران انہوں نے کبھی کھلا آسمان نہیں دیکھا اور تازہ ہوا میں سانس نہیں لی تھی۔ان کی زندگی سے ہی متاثر ہوکر 2004ء میں ٹام ہینکس کی فلم ‘دی ٹرمینل’ ریلیز ہوئی تھی۔
مزید پڑھیں: امریکی خاتون کی آنکھ سے 23 کونٹیکٹ لینسز نکل آئے، ڈاکٹرز بھی حیرت میں مبتلا
علاو ازیں، سن 2015ء میں جرمنی سے تعلق رکھنے والی ایک ماں اور بیٹی قبرص کے ایک ہوائی اڈے میں ایک سال سے زائد عرصے تک مقیم رہیں۔اسرائیل سے ڈیپورٹ ہونے والی یہ ماں بیٹی ائیرپورٹ کے شاپنگ، ریسٹورنٹ، وائی فائی اور باتھ روم کی سہولیات استعمال کرکے گزارا کرتی تھیں، دن بھر کے بعد وہ راتیں ائیرپورٹ کی کار پارکنگ میں سلیپنگ بیگز میں گزارتی تھیں۔
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…