مون سون بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب کے باعث ملک کا تقریباً ایک تہائی حصہ زیر آب ہے، خاص طور پر سندھ اور بلوچستان میں لوگ اردگرد پھیلے آلودہ سیلابی پانی کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں بلکہ زیادہ تر متاثرہ علاقوں میں تو اس سیلابی پانی میں انسانی فضلے کے ساتھ مردہ جانوروں کی باقیات بھی شامل ہیں، جس کی وجہ سے سیلاب متاثرین میں مختلف وبائی امراض پھوٹنے کا خدشہ ہے۔ اس آلودہ پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کو ‘واٹر بورن ڈیزیز’ کہا جاتا ہے،ایسی بیماریوں کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ اگر ان پر بروقت قابو نہ پایا جائے تو یہ تیزی سے پھیلتی ہیں اور بڑی تعداد میں لوگوں کو متاثر کرسکتی ہیں۔لہٰذا، ضروری ہے کہ صحت کی صورتحال پر کڑی نگاہ رکھی جائے اور بیماریوں سے بچاؤ کے لئے ہنگامی اقدامات اٹھائے جائیں۔
یہاں ہم آپ کو ان چند بیماریوں سے متعلق آگاہی دینگے جو آلودہ پانی سے پھیلتی ہیں۔
ٹائیفائڈ
یہ بخار آلودہ پانی میں پائے جانے والے بیکٹیریا ‘سلمونیلا’ کی وجہ سے ہوتا ہے۔یہ بیماری آلودہ کھانے یا کسی متاثرہ شخص کے فضلے سے ،آلودہ پانی کے استعمال کی وجہ سے ہوتی ہے۔اس کی علامات میں کچھ دنوں تک تیز بخار، پیٹ میں شدید درد، سر درد اور قے آنا شامل ہے۔اس بیماری کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس کا جراثیم علاج کے بعد بھی پتے میں رہ جاتا ہے۔اس بیماری کی تشخیص خون کا نمونہ لے کر ٹیسٹ کے ذریعے کی جاتی ہے۔اس کی احتیاطی تدابیر میں صاف پانی کا استعمال، اچھے اینٹی بیکٹیریل صابن کا استعمال اور بہتر نکاسی آب کا انتظام شامل ہے۔اس کے لئے مختلف اینٹی بایوٹیکس کا استعمال کیا جاتا ہے۔
گیسٹرو
ہیضہ یا گیسٹرو مون سون کے موسم میں ہونے والی خطرناک بیماریوں میں سے ایک ہے۔یہ کچھ خطرناک بیکٹیریا کی وجہ سے ہوتا ہے جو خراب کھانوں، گلے سڑے پھلوں، گندے پانی اور حفظان صحت کی کمی کے باعث پھیلتے ہیں۔اس کی علامات میں پیچس اور قے آنا شامل ہے۔ ان کی وجہ سے جسم سے بہت زیادہ پانی ضائع اور پٹھوں میں کھچاؤ پیدا ہوجاتا ہے اورانسانی جسم میں نمکیات کی کمی ہوجاتی ہے۔ایسے مریض کو فوری علاج کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ انسانی جسم میں نمکیات کی کمی موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
ملیریا
ملیریا ان بیماریوں میں سے ہے جس کی وجہ گندے پانی میں پیدا ہونے والی مادہ مچھر ‘انوفیلیس’ ہے۔مون سون کے موسم میں پانی کے جل تھل کی وجہ سے اس مچھر کی پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اسی کے ساتھ ہی ملیریا کی وبا پھیلنے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
انفلوئنزا
انفلوائنزا وائرس ہوا کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے اور ناک، گلے اور پھیپڑوں کو متاثر کرتا ہے اور چونکہ اس کاوائرس کھلی فضا میں موجود ہوتا ہے اس لئے ایک فرد سے دوسرے میں باآسانی منتقل ہوجاتا ہے۔اس بیماری کی نشانیوں میں بہتی ہوئی ناک، جسم اور گلے میں شدید درد اور بخار شامل ہیں، اس وبائی مرض سے بچنے کے لئے اچھی غذا لینا چاہیئے تاکہ جسم کی قوت مدافعت زیادہ مضبوط ہو اور جو اس وائرس کو ختم کرسکے۔
ڈائریا
یہ بیماری بھی آلودہ پانی سمیت تالابوں اور سوئمنگ پولز میں موجود پانی سے بھی پھیلتی ہے، اس بیماری سے انسانی جسم کو غذا پہنچانے والے کچھ راستے سخت متاثر ہوتے ہیں، جس سے انسان کو متلی ہونے سمیت پیٹ میں درد رہتا ہے جب کہ اس سے وزن میں بھی نمایاں کمی ہوجاتی ہے، انسانی جسم کے بخارات نکلنے سے مریض نڈھال ہوجاتا ہے۔
ڈینگی
ڈینگی بخار وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس وائرس کو پھیلانے میں مچھر اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ڈینگی بخار کو “ریڑھ کی ہڈی کا بخار”بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی نشانیوں میں جوڑوں اور پٹھوں میں شدید درد، آنکھوں کے پیچھے درد، سر درد، بخار اور جسم پر سرخ نشانات بننا شامل ہیں۔ ڈینگی بخار سے بچاؤ کی کوئی دوا ہے نہ ہی کوئی ٹیکہ ، اسے صرف حفاظتی تدابیر سے روکاجاسکتا ہے کیونکہ یہ ایسا بخار ہے جس میں تیزی سے پلیٹلیٹس گرنا شروع ہوجاتے ہیں اور اس کی شدت اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ بروقت تشخیص نہ ہونے پر ایک فیصد افراد کی موت بھی واقع ہوجاتی ہے۔
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…