یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی) لاہور کے فیصل آباد کیمپس کے ٹیکسٹائل ماہرین اپنی تحقیق کے بل بوتے پر بھنڈی کے فضلے کو مفید ٹیکسٹائل میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ واضح رہے کہ بھنڈی کے ریشے کو سوت، کپڑے یا دیگر رنگین شکلوں میں تبدیل کرنا مشکل ہے۔ تاہم، یو آئی ٹی کے محققین کی ٹیم نے بھنڈی کے تنوں کے ریشے سے دھاگہ تیار کرنے کا کامیاب تجربہ کرلیا ہے۔
محققین کے مطابق پاکستان دنیا میں بھنڈی پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے جس کی سالانہ پیداوار 180 ملین کلو گرام سے زیادہ ہوتی ہے اس سے تقریباً 335 ملین کلو گرام سالانہ تنوں کا فضلہ نکلتا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ بھنڈی امریکہ کے مختلف علاقوں میں 45,000 ایکڑ اراضی پر اگائی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں پودوں کے فضلے کو عموماً محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کے بجائے جلا دیا جاتا ہے۔ البتہ اب جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اور بھنڈی کے تنوں کو کپاس سے ملا کر پاکستان سالانہ 54 ہزار 877 ملین روپے سے زیادہ ٹیکسٹائل برآمد کرسکتا ہے۔
اس تحقیقی پراجیکٹ کی نگرانی ٹیکسٹائل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر محسن نے کی جبکہ ڈاکٹر عامر اور بی ایس سی ٹیکسٹائل انجینئرنگ کے آخری سال کے طلباء علی اسد اللہ، مقدّس اقبال اور طلحہ امین تحقیقی ٹیم کا حصہ تھے۔ محققین نے منی اسپننگ لیب میں سوت بنانے کے لیے بھنڈی کے ریشے کو روئی کے ریشے کے ساتھ ملایا۔ بھنڈی کے ریشے سے بننے والے کپڑے کو قدرتی رنگ کے ساتھ رنگ دیا گیا تھا جسے ٹیکسٹائل ڈیپارٹمنٹ میں ایک اور انٹیلیکچوئل پراپرٹی پر مبنی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا تھا، جس سے پورے عمل کو بائیو بیسڈ اور آرگینک بنایا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پیش رفت نہ صرف پیسے کی بچت کرے گی بلکہ یہ ہمارے ملک کو صاف، سرسبز اور آلودگی سے پاک رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوگی۔ ریسرچ کے نگران پروفیسر محسن کے مطابق بھنڈی کا ریشہ روئی سے سستا ہے۔ خام مال آسانی سے دستیاب نہیں بلکہ ضائع ہوجاتا ہے اس کی طاقت بہتر ہے اور اعلیٰ برانڈز ایسی پائیدار مصنوعات مانگ رہے ہیں اور اعلیٰ قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔
اس تحقیقی پراجیکٹ کی کامیابی پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سید منصور سرور نے ٹیم کی کاوشوں کو سراہا۔انہوں نے کہاکہ ہمارا ٹیکسٹائل ڈیپارٹمنٹ مختلف زرعی فضلہ سے ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی ایک رینج بھی تیار کررہا ہے اور پہلے ہی کامیابی سے کیلے کے فضلے سے ویلیو ایڈڈ فیبرک تیار کرچکا ہے اور کپاس کو ری سائیکل کررہا ہے۔
قبل ازیں، پشاور کے خیبر ٹیچنگ اسپتال کے ڈاکٹر طلحہ درانی نے ملک میں شوگر کے مریضوں کی سوئی سے جان چھڑوانے کے لئے انسولین پر مبنی پیچز تیار کئے جس سے شوگر کے مریضوں کو انسولین کے ٹیکے نہیں لگوانے پڑیں گے اور اس کی بجائے وہ یہ انسولین پیچز جلد پر چپکا کر اپنی صحت کا خیال رکھ سکیں گے۔ ان انسولین پیچز کے تمام لیب ٹیسٹ کامیاب ہوچکے ہیں جبکہ لندن سے پیٹنٹ کے حصول پر کام ہورہا ہے۔ اس نئی دریافت نے عالمی سرمایہ کاروں کی بھی توجہ حاصل کرلی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک انسولین پیچ کی قیمت 50 روپے کے لگ بھگ ہوگی۔ ان کی تیاری میں برطانوی ڈاکٹرز پروفیسر ڈینس دورومس، نیورولوجسٹ ڈاکٹر میاں ایاز الحق اور میکٹرونکس انجنئیر ڈاکٹر انعم عابد نے بھی حصہ لیا۔
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…