اس بات کی یقینا ایک وجہ ہے کہ اسلام میں سب سے خراب چیزوں میں سے ایک کو غصہ سمجھا جاتا ہے۔ ہمارا مذہب غصے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے کیونکہ اس سے سب کچھ تباہ اور برباد ہوجانے کا خدشہ رہتا ہے۔ قلیل مزاج ہونا کوئی ایسی چیز نہیں جس پر فخر کرنا چاہئے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ لاہور میں ایک نوجوان ٹیکسی ڈرائیور اپنے مسافر کے غصے کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
تفصیلات کے مطابق 26 سالہ محمد علی نامی نوجوان جو ایک آن لائن ٹیکسی سروس میں ڈرائیور کے فرائض سرانجام دے رہا تھا، تاہم چند روز قبل وہ معمول کے مطابق اپنے کام کے لئے نکلا لیکن افسوس کے ساتھ اس کی گاڑی میں بیٹھنے والا آخری مسافر اس کی موت کا سبب بن گیا۔
پولیس کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق آن لائن ٹیکسی سروس ڈرائیور کی لاش 5 جنوری کو صوبائی درالحکومت لاہور کے علاقے ساندھا سے برآمد ہوئی، جہاں اس روز اس کی گاڑی میں آخری مسافر طاہر نامی شخص تھا، جس نے اسے اس دن قتل کا نشانہ بنایا۔
اطلاعات کے مطابق پولیس نے مرکزی ملزم طاہر کو اس کے قریبی دوست محسن کی فراہم کردہ معلومات کے بعد گرفتار کیا، جوکہ اس وقت خود بھی پولیس تحویل میں ہے۔ پولیس کی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ محسن نے طاہر کے لئے آخری سواری بک کروائی تھی۔ جبکہ ملزم طاہر ایک رات قبل آخری بار مقتول محمد علی کی گاڑی میں سوار ہوا تھا۔
پولیس حراست میں ابتدائی تفتیش کے دوران ملزم طاہر نے ٹیکسی ڈرائیور کے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے ایک لڑکی سے ملنے کے لئے سواری بک کروائی تھی، تاہم جب بہت دیر ہوگئی، تو ڈرائیور محمد علی نے اسے گاڑی سے باہر نکلنے کو کہا، جس پر طاہر کو شدید غصہ آیا اور اس نے ڈرائیور محمد علی کو گولی مار دی۔
یہی نہیں پولیس کی جانب سے بیانات میں شکوک وشبہات کے باعث ملزم سے تفتیش کا عمل جاری ہے، اس دوران ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ ملزم کے بیانات کی روشنی میں ملزم سے تفتیش جاری ہے۔ طاہر اس رات محمد علی کو گولی مارنے کے بعد جائے وقوعہ سے فرار ہوگیا تھا۔
دوسری جانب 26 سالہ آن لائن ٹیکسی ڈرائیور محمد علی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ لاہور کے علاقے باغبان پورہ کا رہائشی ہے۔ پولیس نے محمد علی کی لاش پوسٹ مارٹم کے بعد ورثاء کے حوالے کردی ہے۔ جبکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق محمد علی کو سینے میں گولیاں مار کر قتل کیا گیا ہے۔
یہاں پر یہ بات غور طلب ہے کہ آخر کیسے لوگ گھروں سے باہر جا کر معمولی سی باتوں پر کسی انسان کی جان لے سکتے ہیں، ان کے اندر اتنی ہمت اور حوصلہ کہاں سے پیدا ہوتا ہے، انہیں آخر کیوں لگتا ہے، کہ وہ اس طرح کے معاملے کرنے بعد باآسانی سے اپنی زندگی دوبارہ جی سکیں گے۔ اس سلسلے میں ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدلیہ کو ایسے مجرمان کے خلاف سخت سے سخت سزا دینی چاہئے تاکہ آئندہ کبھی کوئی اس طرح کا کام کرنے سے پہلے دس بار سوچے۔
یاد رہے غصے میں آکر یا طاقت کے نشے میں سر زد ہونے والا پاکستان میں یہ کوئی پہلا مجرم یا قتل نہیں، اس سے سلسلے کا ایک بڑا واقعہ سال 2012 میں پیش آیا تھا، جہاں شاہ رخ جتوئی نامی نوجوان نے شاہ زیب خان نامی شخص کو گولیاں مار کر بے دردی سے قتل کردیا تھا۔
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…