وزیراعظم عمران خان نے سانحہ مچھ کے متاثرین سے کئے گئے اپنے وعدے کو پورا کرتے ہوئے کوئٹہ روانہ ہوگئے ہیں جہاں وہ شہید کان کنوں کے لواحقین سے ملاقات کرکے تعزیت کریں گے۔
گزشتہ دنوں مچھ میں نامعلوم مسلح دہشتگردوں نے کوئلے کی کان میں کام کرنے والے 11 کان کنوں کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔ لواحقین نے کوئٹہ کے شدید سرد موسم میں 6 روز تک اپنے پیاروں کی لاشیں رکھ کر احتجاج کیا اور ان کا مطالبہ تھا کہ وزیراعظم کے آنے تک لاشوں کی تدفین نہیں کی جائے گی تاہم گزشتہ رات ہزارہ ایکشن کمیٹی اور حکومت کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد سانحہ مچھ میں جاں بحق افراد کی تدفین کر دی گئی ہے۔
انگریزی روزنامہ ڈان کی رپورٹ کے میں بتایا گیا ہے کہ سانحہ مچھ کی نماز جنازہ علامہ راجہ ناصر عباس کی امامت میں کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن میں ادا کی گئی۔ جس میں وفاقی وزیر برائے میری ٹائم علی زیدی، وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری، قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری اور صوبائی وزیر داخلہ میر ضیا لانگو کے علاوہ دیگر صوبائی وزراء اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں سمیت تقریباً 5,000 افراد نے شرکت کی۔
ہزارہ برادری میں شہداء کے لواحقین کا یہ مطالبہ تھا کہ وزیراعظم آکر مظلوموں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھیں۔ تاہم وزیر اعظم نے ہزارہ برادری سے اپیل کی تھی کہ وہ مچھ حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تدفین کریں اور اس طرح “وزیر اعظم کو بلیک میل کرنے” سے گریز کرنے کا مطالبہ کیا۔ وزیر اعظم کی جانب سے اس بیان کو ہر طبقے فکر نے غیر حساس اور غیر ذمہ دارانہ کہا ۔
خیال رہے کہ وزیر اعظم نے ہزارہ برادری کے متاثرین کے تمام مطالبات کو ماننے کا عندیہ تھا سوائے ایک مطالبہ کہ جو وزیراعظم کی آمد اور شہداء کی تدفین کے متعلق تھا۔ جس پر وزیر اعظم نے یہ بیان دیا تھا کہ متاثرین کے مطالبات مانے جائیں گے لیکن شہداء کی تدفین نہ کرکے وزیر اعظم کو بلیک میل نہیں کریں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم کے معاونین اور کابینہ کے ارکان نے انکشاف کیا کہ عمران خان حملے کے فوراً بعد کوئٹہ پہنچنا چاہتے ہیں۔ لیکن انہیں صورت حال معمول پر آنے تک انتظار کرنے کا کہا گیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ “بلیک میلنگ” کے تبصرے کے پس منظر میں کچھ وجوہات تھیں۔ حکومت کا خیال تھا کہ ہزارہ کمیونٹی وزیر اعظم کے کوئٹہ کے دورے کا مطالبہ نہیں بلکہ مجلس وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم) اور اپوزیشن نے سیاسی فائدے حاصل کرنے کے لئے اس بیان کو استعمال کیا۔
تاہم وزیر اعلیٰ بلوچستان نے مذاکرات کے بعد متاثرین کو یہ یقین دہانی بھی کروائی تھی کہ وزیر اعظم عمران خان لواحقین کے پاس آئیں گے اور ان کے مسائل سنیں گے اور بلوچستان میں سیکورٹی کی بہتری کے لیے اقدامات سے آگاہ کریں گے۔
واضح رہے کہ اسلامک اسٹیٹ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے جس میں بلوچستان میں اقلیتی شیعہ ہزارہ برداری سے تعلق رکھنے والے 11 کوئلے کے کان کنوں کو ہلاک اور شہید کردیا تھا۔
خیال رہے کہ اس سے قبل بھی طالبان ، آئی ایس اور دیگر عسکریت پسند گروہوں نے پاکستان اور افغانستان دونوں ہی علاقوں میں ہزارہ برادری کو اکثر نشانہ بنایا ہے۔ 2013 میں بھی کوئٹہ میں ہزارہ کے نواح میں تین بم دھماکوں میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…