لاہور کے چڑیا گھر میں وائٹ ٹائیگر کے دو بچوں کی اچانک ہلاکت کا معاملہ، پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کورونا وائرس سے موت کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے. پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والے سفید ٹائیگرز میں کورونا کا شبہ ہے، ہلاک ہونے والے سفید ٹائیگرز کے بچوں کی آنتوں میں سوزش تھی، سفید ٹائیگرز کے پھیپھڑوں میں انفیکشن سے بایاں پھیپھڑا بالکل سکڑ چکا تھا جب کہ دائیں پھیپھڑے میں پانی بھر چکا تھا، وائٹ ٹائیگرز کے دل میں ہیمبرج کے باعث خون کے دھبے بھی پائے گئے ہیں اور سفید ٹائیگرز کے بچوں کو سانس لینے کے راستے میں بھی ہیمرج تھا۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شیر کے بچوں کو سانس لینے میں بھی دشواری کا سامنا تھا، یاد رہے کہ چند روز قبل لاہور کے چڑیا گھر میں نایاب سفید ٹائیگر کے دو بچے تین ماہ کی عمر میں وائرل انفیکشن کی وجہ سے ہلاگ ہوگئے۔
اس حوالے سے چڑیا گھر کی ڈپٹی ڈائریکٹر کرن سلیم نے رائٹرز کو بتایا کہ زو کے 6 ملازمین میں بھی کورونا وائرس کی تشخیص ہوچکی ہے۔
چڑیا گھر کے ملازمین میں کورونا وائرس کی تشخیص کے بعد جانوروں میں کو کورونا وائرس منتقل ہونے کا شبہ کیا جارہا تھا اور اب وائٹ ٹائیگر کے بچوں کی ہلاکت کے بعد ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں وائرس کے باعث موت کے خدشے نے اس بات کا امکان پیدا کردیا ہے کہ چڑیا گھر کے مزید جانور بھی اس وائرس کا شکار ہوسکتے ہیں۔
دوسری طرف جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن اس واقعے کو پاکستانی چڑیا گھروں میں جنگلی جانوروں کی دیکھ بھال کی نامناسب سہولیات کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ جے ایف کے (جسٹس برائے کیکی) جانوروں سے بچاؤ اور شیلٹر کی بانی زوفیشاں انوشے نے لاہور کے چڑیا گھر میں سفید ٹائیگر کے بچوں کی موت کو انتظامیہ اور حکام کی غفلت ٹہرایا، ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں سفید رنگ کے شیر نایاب ہیں اور انہیں صحت مند زندگی گزارنے کے لئے ایک مخصوص ماحول کی ضرورت ہوتی ہے مشاہدے میں آیا ہے کہ طبی سہولیات کی عدم فراہمی اور نامناسب حالات کی وجہ سے جانوروں کی ہلاکت کے یہ واقعات رونما ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لئے انسانوں کے تحفظ کے ساتھ ساتھ چڑیا گھروں اور دکانوں میں ملنے والے جانوروں کی حفظان صحت کے اصولوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
تاہم چڑیا گھر کے ڈپٹی ڈائریکٹر کرن سلیم نے ان تمام تر الزامات کو مسترد کرتے ہوئے جانوروں کے حقوق کے کارکنوں کو چڑیا گھر کا دورہ کرنے کی پیشکش کردی ہے تاکہ وہ جانوروں کی حفظان صحت اور دیگر سہولیات کی خود جانچ پڑتال کرسکیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال دنیا کے تنہا ترین کاون ہاتھی کو پاکستان میں قدرتی ماحول میں رکھنے کی کوئی سنکچوری نہ ہونے کی وجہ سے کمبوڈیا بھیجنا پڑے پھر اس کے بعد دو ہمالیائی ریچھوں سوزی اور ببلو کا مناسب سنکچوری نہ ہونے کے باعث بیرون ملک اردن روانہ کردیا گیا۔ عدالت نے یہ فیصلے جانوروں کی فلاح و بہبود کیلئے سنائے اور عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ نے ان جانوروں کو بیرون ملک منتقل کردیا۔
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…