دور جدید میں دنیا کی طرح پاکستان بھر میں ہر فیلڈ میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری خواتین ناصرف باصلاحیت ہیں بلکہ کچھ کر دیکھانے کے فلسفے پر یقین بھی رکھتی ہیں۔ البتہ بدقسمتی سے پاکستان میں پچھلے کچھ سالوں کے دوران دفاتر اور کام کی جگہوں پر ہراساں کرنے کے واقعات میں بڑی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جن میں خواتین کو اپنے ہی ساتھ کام کرنے والے مرد حضرات، مالکان اور ساتھیوں کی طرف سے غیر متوقع طور پر ہراساں کیا گیا ہے۔
ایسا ہی ایک مبینہ جنسی طور پر ہراساں کرنے کا چونکا دینے والا واقعہ خیبر پختونخوا کے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں حال ہی میں پیش آیا ہے۔ جس نے ایک بار پھر سے گھر کے باہر کام کرنے والی خواتین کو خوف میں مبتلا کرکے رکھ دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق، پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں پیش آیا ایک افسوسناک واقعہ، جہاں اسپتال میں کام کرنے والی خاتون ملازمہ نے اسپتال کے ڈائریکٹر اور دیگر اعلی عہدیداروں پر جنسی ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ خاتون کے مطابق ، افسران نے اپنے “ذاتی مطالبات” کی تکمیل نہ کرنے پر انہیں برخاست کردیا۔
اطلاعات کے مطابق ، خاتون ملازم نے دعویٰ کیا کہ اسپتال کے سینئر افسران ان سے غیر معقول مطالبات کرتے ہیں۔ البتہ انہوں نے ان کے مطالبات ماننے سے انکار کردیا۔ لہذا نتیجہ کے طور پر، انہوں نے خاتون ملازمہ کو ملازمت سے برطرف کردیا۔
اس دوران خاتون ملازمہ نے جاری کردہ ویڈیو پیغام میں مزید بتایا کہ میں نے اعلی عہدیداروں کے ذریعہ ہسپتال انتظامیہ کو شکایت کی۔ البتہ انہوں نے افسران کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے میرے خلاف انکوائری ترتیب دی۔ بعدازاں تفتیش کے بعد ، مجھے ہسپتال سے نکال دیا گیا۔
اس کے برعکس، ہسپتال کی انتظامیہ نے خاتون ملازمہ کے لگائے گئے تمام الزامات کی تردید کردی ہے۔ ہسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ خاتون ملازمہ اسپتال کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ نتیجہ کے طور پر ، انہوں نے خاتون ملازمہ کو نوکری سے برخاست کردیا۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے اسپتال کے ایک نمائندے نے یہ بھی کہا کہ بہت سارے ملازمین نے مسلسل شکایت کی کہ خاتون ملازمہ کام کرنے میں دلچسپی نہیں لیتی تھیں۔ جبکہ مزید یہ کہ وہ اپنی پسند کے محکمہ میں ٹرانسفر چاہتی تھیں۔
یہی نہیں ان کا انہوں نے مزید کہا کہ اسپتال انتظامیہ کی طرف سے بار بار انتباہ کرنے کے بعد بھی خاتون نے اپنی عادت کو برقرار رکھا۔ اس کے نتیجے میں، انکوائری کمیٹی کے ذریعہ ان خاتون کو برخاست کردیا گیا۔
واضح رہے 2010 میں، اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی نے قانون سازی کی اور “2010 میں کام کرنے کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ قانون” کی منظوری دی۔ یہ قانون تنظیم کے اندرونی طرز عمل کا بھی مطالبہ کرتا ہے ۔
خیال رہے، ہم اپنے معاشرے میں آج کتابی تحریروں اور سیاسی تقریروں میں تو خواتین کے حقوق اور تحفظ کی بات کرتے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ معاشرے میں مردوں اور عورتوں کے لئے برابر کی بنیاد پر کام کرنے کے مواقع ہونے چاہیے البتہ افسوس طلب بات ہے کہ اس پر عمل درآمد ہوتا دیکھائی نہیں دے رہا، افسوس کے ساتھ ہراسگی ہمارے معاشرے کبھی حصہ نہیں ہوا کرتی تھی البتہ آج ایک حقیقت ہے، جسے جلد از جلد جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت ہے۔ جس کے لئے سخت قانون سازی کی ضرورت ہے۔
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…