فٹ پاتھ پر کپڑے بیچنے والے 13 سالہ عبدالرحمن کی کہانی

ہمارے ملک میں غربت کی وجہ سے کئی چھوٹے بچے اسکولوں میں پڑھنے لکھنے کے بجائے محنت مزدوری کرکے اپنے گھر کی کفالت کر رہے ہیں ، کوئی مکینک کا کام کرتا ہے تو کوئی سبزی بیچ رہا ہے، یہ بچے اپنے شوق سے نہیں بلکہ حالات سے مجبور ہوکر یہ کام کر رہے ہیں تاکہ ان کے گھر کا چولہا جلتا رہے اور وہ بھوکے پیٹ نہ سوئیں۔ کراچی کا رہائشی 13 سالہ عبدالرحمن بھی ان بچوں میں سے ایک ہے جو اتنی کم عمری میں شام سے لیکر رات تک شہر کی مختلف فٹ پاتھوں پر خواتین کیلئے ملتانی کڑھائی کے کپڑے بیچتا ہے۔ عام طور پر جس عمر میں بچے بے فکری کی زندگی گزارتے ہیں، کھیلتے کودتے ہیں اس عمر میں یہ کمسن بچہ رزق حلال کمانے کی جستجو میں لگا ہوا ہے۔

عبدالرحمن نے بتایا کہ پہلے وہ پچھلے ایک سال سے اپنی والدہ کے ساتھ یہ کام کر رہا تھا لیکن جب اس کی والدہ کے گھٹنوں میں تکلیف ہوئی تو اس نے اپنی والدہ کو کام کرنے سے منع کر دیا اور اب وہ اکیلے ہی سڑکوں پر پھیر کر کپڑے بیچتا ہے اور اپنی ماں اور چھوٹے بھائی کی کفالت کر رہا ہے۔

Image Source: Screenshots

عبدالرحمن کے مطابق اس کا باپ نشے کا عادی ہے اور کوئی کام نہیں کرتا جبکہ بڑے بھائیوں نے ان کو چھوڑ دیا ہے۔ اس لئے وہ روزی روٹی کے بندوبست کے لئے شام میں کپڑے بیچنے نکل جاتا ہے اور رات بارہ بجے تک گھر واپس جاتا ہے۔ اس کے پاس موسم کی مناسبت سے ملتانی کڑھائی میں لان، کاٹن اور شیفون کے سوٹ دستیاب ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ خواتین کو ملتانی کڑھائی کے یہ کپڑے بہت پسند آتے ہیں، ان کی نفیس کڑھائی اور اچھی کوالٹی کی وجہ سے سوٹ اچھے داموں بک جاتے ہیں۔

Image Source: Screenshots

بیشک محنت میں عظمت ہے اور محنت سے حق حلال کی روزی کمانے والے کبھی کسی کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ یہی محنتی لوگ آگے چل کر کامیابیاں حاصل کرتے ہیں، عبدالرحمن بھی اس بات پر عمل پیرا ہے اور اس کا خواب ہے اس کا اپنا ایک اسٹور جہاں وہ اپنے یہ کپڑے بیچے تاکہ اس کو سڑکوں پر پھیرنا نہ پڑے۔

افسوس کہ ہوشربا مہنگائی اور غربت کی وجہ سے یہ بچے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ دنوں بھی سوشل میڈیا پر 10 سالہ شاہ زیب کی کہانی تیزی سے وائرل ہوئی جو سڑکوں پر موبائل فون کا سامان بیچتا ہے۔ اسکول ، مدرسے اور ٹیوشن سے فارغ ہونے کے بعد شاہ زیب رات آٹھ بجے سے دو بجے تک کراچی کی سڑکوں پر کاندھے پر بیگ لٹکائے موبائل فون کا سامان جیسے ہیڈ فون ، چارجر وغیرہ بیچتا ہے تاکہ اپنے گھر والوں کا پیٹ پال سکے۔ اس کے والد کوکرنٹ لگ گیا تو ذمہ داریوں کا بوجھ اس کے کاندھوں پر آگیا۔

مزید پڑھیں: محنت میں عظمت ہے تیرہ سالہ عبدالوارث

شاہ زیب نے پہلے چھولے بیچے اور کھلونوں کا اسٹال بھی لگایا لیکن پھر جب لاک ڈاؤن لگا تو اسٹال بند کرنا پڑ گیا۔اس دوران اس نے موبائل فون کا سامان بیچنا شروع کیا جس سے اس کی اچھی آمدنی ہوجاتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر وہ کام کرنے کے بجائے کسی کے آگے پھیلاتا تو اسے پیسے مانگنے کی گندی عادت پڑجاتی اس لئے اس کے ماں باپ نے نصیحت کی کہ بیٹا محنت کرو۔

Story Courtesy: AARO

Ahwaz Siddiqui

Recent Posts

پاکستان میں نفسیاتی تجزیے کے مستقبل کی تلاش

کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…

6 days ago

شوگر کے مریض رمضان المبارک کے روزے کیسے رکھیں؟

ماہ صیام کے دوران’ روزہ رکھنا ‘ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے لیکن روزے کے…

2 months ago

رمضان میں سوئی گیس کی ٹائمنگ کیا ہوگی؟

سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…

2 months ago

سندھ میں نویں دسویں جماعت کے امتحانات کب ہونگے؟

کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…

2 months ago

فروری میں 28 دن کیوں ہوتے ہیں؟

فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…

2 months ago

اگر مگر ؟اب کیسے پاکستان چیمپئنز ٹرافی میں رہتا ہے؟

پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…

2 months ago