گاڑی کھڑی کریں تو مڈ گارڈ سے بتا دیتی ہوں کہ گاڑی کتنے ٹائم چلے گی۔ یہ کسی مرد مکینک کا نہیں بلکہ جمیلہ خاتون کا تجربہ ہے جو اپنے گھر کی کفالت کے لئے سڑک کنارے موٹر سائیکلوں کے انجن سروس کرنے کے ساتھ آئل چینج کرتی ہیں۔
زندگی جہد مسلسل کا نام ہے لیکن زندگی کی مشکلات کے درمیان میں آسانی کیسے ڈھونڈنی ہے یہ کوئی اس باہمت خاتون سے پوچھے جو شوہر اور جوان بیٹے کی موت کا صدمہ لئے ہر روز نئے عزم کے ساتھ گھر سے نکلتی ہے۔ بلاشبہ کسی بھی خاتون کے لئے یہ کام آسان نہیں لیکن مجبوری اور حالات کو بدلنے کا حوصلہ انسان سے مشکل کام بھی کروا لیتا ہے۔ جمیلہ خاتون اپنے اکلوتے بیٹے کی موت کے بعد اپنی بیوہ بہو اور پوتے پوتیوں کا پیٹ پالنے کے لئے دن رات محنت کر رہی ہیں۔
اپنے علاقے میں آئل والی آنٹی کے نام سے مشہور جمیلہ خاتون نے آئل چینج کرنے کا کام کب اور کیسے شروع کیا؟ اس بارے میں کہتی ہیں کہ جب ان کا بیٹا 12 سال کا تھا تو ان شوہر کا انتقال ہوگیا تو رشتے داروں نے کہا کہ اپنا بوجھ خود اٹھاؤ اس کے بعد انہوں نے کمر کس لی ، پکوڑے سموسے بیچے ، کولڈرنک بیچنے کا کام کیا، اخباروں کا کام بھی کیا پھر موٹر سائیکل کی سروس اور آئل تبدیل کرنے کے کام میں منافع نظر آیا تو انہوں نے کئی سال تک اس کام کو اچھے سے سیکھا۔ اس دوران لوگوں نے ان کا حوصلہ پست کرنے کی ہر ممکن کوشش کی یہاں تک کہا کہ یہ کام نہیں کرسکتیں لیکن وہ ٹھان چکی تھی اس لئے پوری دلجمعی سے یہ کام سیکھا اور پھر اپنا کام شروع کیا۔
گھر سے نکلنے والی ہر عورت کا اچھے برے مردوں سے واسطہ پڑتا ہے اس بارے میں جمیلہ خاتون کہتی ہیں کہ ان کے پاس کئی مرد آتے ہیں جن میں کئی اچھے تو کچھ برے بھی ہوتے ہیں، انسانیت کے ناطے کئی لوگ تو ان کی مدد بھی کر جاتے ہیں جبکہ کچھ ان کی عمر کا لحاظ کئے بغیر انہیں دوستی کی پیشکش کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کو وہ اچھے سے سبق سیکھا دیتی ہیں۔
روزانہ کی اس مشقت سے جمیلہ خاتون کےہاتھ پتھر جیسے ہوگئے ہیں ، کام کرتے ہوئے ان کا برقعہ روزانہ سیلینسر سے جلتا ہے لیکن ان کا حوصلہ کم نہیں ہورہا بلکہ یہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ کہتی ہیں کہ حالات سے تنگ آکر کام کرنا نہیں چھوڑ سکتی ، مجھے محنت سے کوئی عار نہیں جب تک جان باقی ہے محنت کرتی رہوں گی کیونکہ مجھے اپنے بچوں کو پالنا ہے ، انہیب بڑا کرنا ہے اوران کو کسی کا محتاج نہیں بنانا۔
آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی اور غربت سے پریشان ہمارے معاشرے میں کئی خواتین اپنے معاشی حالات بہتر کرنے کے لئے محنت کرنا چاہتی لیکن انہیں کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اکثر گھرانوں میں لوگ کیا کہیں گے کی وجہ سے عورتوں کو کام کرنے سے روکا جاتا ہے ، اس سوچ پر کئی تو اپنا دل مار کے بیٹھ جاتی ہیں جبکہ کچھ اپنے حالات بدلنے کے لئےاس سوچ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے مشکلات سے نبردآزما ہونے کے لئے آگے بڑھتی ہیں اور پھر یہی خواتین سب کے لئے مثال بن جاتی ہیں۔
حال ہی میں ایسی ہی ایک اور باہمت خاتون اور بیوی کی کہانی سامنے آئی، جنہیں ناصرف پاکستان کی پہلی ناصرف موبائل مکینک ہونے کا اعزاز حاصل ہے بلکہ وہ اپنے شوہر کا شانہ بشانہ انداز میں ہاتھ بھی بٹارہی ہیں۔ فیصل آباد کی رہائشی عاصمہ نے موبائل ریپیرنگ کا باقاعدہ کورس کیا اور سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد اپنی دکان کھولی ہے۔
کچھ عرصہ قبل شہر کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک فاطمہ نازش نامی خاتون کی کہانی سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوئی جنہوں نے مالی پریشانیاں دور کرنے کے لئے تندور لگالیا۔ فاطمہ نازش چار بچوں کی ماں ہیں اور اپنے بچوں کی اچھی پرورش اور گھریلو مالی حالات بہتر کرنے کے لئے تندور کی دکان کھول کر باقاعدہ اپنے بزنس کا آغاز کیا۔
Story Courtesy: Aaro
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…