یہ ایک انتہائی تلخ حقیقت ہے کہ ہراسانی کے خلاف سخت قوانین کے ہوتے ہوئے بھی دفاتر، اسکول، یونیورسٹی، اسپتال، مارکیٹ غرض ہر جگہ خواتین کے ساتھ ہراسانی کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ چار دیواری سے باہر قدم رکھتے ہی حوا کی بیٹی پر مختلف خوف کی کیفیات طاری رہتی ہیں۔ اس کی مثال اسلام آباد میں حال ہی میں دیکھی گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق ٹوئیٹر پر ایک صارف نے ہراساں کرنے کا ایک واقعہ شیئر کیا جو اسلام آباد کے جی-11 مرکز میں اس وقت پیش آیا، جب وہ اتوار کو اپنی بہن اور کزن کے ساتھ تھیں۔
صارف نے لکھا کہ “وہ گزشتہ رات 9:30 سے 10:40 بجے کے قریب جی-11 مرکز میں اپنی بہن اور کزن کے ساتھ تھیں،” “ہم نے اس آدمی کو تہذیب کے باہر اس کی سائیکل پر دیکھا جب ہم پہلی بار پہنچے تو وہ ہمارے سامنے رک گیا اور انہیں عجیب و غریب آنکھ سے دیکھنے لگا۔”
“صارف نے بتایا کہ انہوں نے بھی غصے سے اس کی طرف دیکھا کیونکہ وہ اس کی وجہ سے گھبراہٹ کا شکار ہورہے تھے،”البتہ کچھ دیر بعد انہوں نے بھی دیکھنا بند کردیا تھا کیونکہ وہ وہاں سے چلا گیا۔ “لہذا ہم پھر اپنے کام کاج کرنے میں مصروف ہوگئے۔ لیکن جب تقریباً 30 منٹ بعد ان کی بہن کو احساس ہوا کہ وہ سارا وقت ان کا پیچھا کر رہا تھا۔
صارف نے مزید کہا کہ ان کی بہن کو نقد رقم نکالنے کے لیے اے ٹی ایم جانا پڑا، تو وہ اور کزن بھی ساتھ اندر چلی گئیں۔ “اس دوران مذکورہ شخص نے واضح طور پر انہیں اندر جاتے ہوئے دیکھا، لیکن پھر بھی اس نے دروازہ کھولا اور اندر آنے کی کوشش کی۔ چنانچہ انہوں نے اسے گالی دی اور اسے باہر دھکیل دیا، اور دروازہ اندر سے بند کر دیا۔ لیکن وہ عجیب، پاگل شخص تھا. وہ ان کے ردعمل کو کسی کھاتے میں نہیں لے رہا تھا اور اس چیز کو ایک چیلنج کے طور پر لے رہا تھا۔
صارف کے مطابق جب انہوں نے شیشے کے دروازے سے مذکورہ شخص کی تصاویر لینے کا فیصلہ کیا، تو وہ شخص مسکرانے لگا اور امن کے اشارے کرنے لگا “گویا یہ اس کے لیے ایک مذاق تھا”۔ اب وہ صارف صرف ہمارے دروازے کے بالکل باہر کھڑا تھا اور کوئی حرکت نہیں کر رہا تھا،‘‘۔ “ہم واضح طور پر ہر منظر نامے کا تصور کر رہے تھے اور خوفزدہ ہونے لگے۔
ٹوئیٹر پر شئیر کردہ پوسٹ میں خاتون نے مزید بتایا کہ ہم نے پھر ایک ویڈیو بنانا شروع کی، باہر گئے، اور اسے باہر بلایا۔ وہ قدرے حیران ہوا جیسے اسے یہ توقع نہیں تھی کہ ہم اس کا سامنا کریں گے اور اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ ہم اس کے بعد بھاگے اور گھر واپس چلنے کی کوشش کی (ڈرتے ہوئے بھی کیونکہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ وہ یہ جان سکے کہ ہم کہاں رہتے ہیں) اور 10 منٹ بعد ہم نے اسے دوبارہ اپنی سائیکل پر اسی سمت جاتے ہوئے دیکھا۔ اس ڈر وخوف سے وہ ایک قبرستان میں چھپ گئے، امید کی کہ وہ یہاں بھٹک جائے گا اور نتیجہ کچھ ایسا نکلا۔
“پیغام کے آخر صارف لکھتی ہیں جہ وہ چاہتی ہیں کہ اس کی والدہ/بہن/کزن یا کوئی رشتہ دار اس پوسٹ کو دیکھے اور یہ سمجھے کہ وہ کس رینگنے والے اور شکاری کو پال رہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ اسے سبق سکھائیں گے تاکہ وہ اسے عمل کو نہ دہرائیں۔
یاد رہے کچھ عرصہ قبل کراچی کی مصروف ترین شاہراہ شارع فیصل پر ایک خاتون ٹیچر کو ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ٹیچر نے فیس بک پر ایک پوسٹ کی جس میں انہوں نے دو موٹر سائیکلوں پر سوار تین اوباش لڑکوں کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کیں جنہوں نے انہیں راستے میں ہراساں کرنے کی کوشش کی۔ یہ لڑکے دیدہ دلیری سے ان کے رکشے کا پیچھا کرتے رہے اور چھیڑ چھاڑ، آوازیں کسنے کے ساتھ انہیں اشارے بھی کرتے رہے۔ ٹیچر نے ان لڑکوں کی ویڈیو بنائی اور اپنی پوسٹ میں اس ویڈیو کو وائرل کرنے کی درخواست بھی کی جس کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور ان اوباش لڑکوں کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…