دنیا میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو ناصرف دوسروں کے لئے جیتے ہیں بلکہ ان کا دکھ درد بھی بانٹتے ہیں ، کوئٹہ کی آمنہ شفیع بھی ان لوگوں میں سے ایک ہیں، جو خود تو اولاد سے محروم ہیں لیکن محدود وسائل میں 14 یتیم بچوں کی کفالت کررہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دیگر 120 بچوں کے تعلیمی مسائل کے حل کے لیے بھی کوشاں ہیں اور اسی مقصد کے لئے انہوں نے آرفنیج اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کی بنیاد رکھی تاکہ وہ یہ سب کام ایک ادارے کے ذریعے سر انجام دیں۔ وہ اس وقت بلوچستان کے تین اضلاع خضدار، کوئٹہ اور نوشکی میں کام کررہی ہیں۔ ان کا ارادہ ہے کہ وہ اس کام کو پورے صوبے اور ملکی سطح بلکہ عالمی سطح تک لیکر جائیں۔
آمنہ شفیع کا تعلق بلوچستان کے قبائلی علاقے خضدار سے ہے، جہاں خواتین کے گھر سے باہر کام کرنے کو غیر مناسب خیال کیا جاتا ہے۔ انہیں نہ صرف پذیرائی مل رہی ہے بلکہ انہیں کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ اگر اس کام میں ان کے والدین کی مدد ان کے ساتھ نہ ہوتی تو شاید وہ اس کام کو کرنے کے قابل نہ ہوتیں، خصوصاً ان کے بھائی جو ہر قدم پر ان کے ساتھ ہوتے ہیں، جن کی بدولت وہ دوردراز علاقوں میں سروے اور بچوں کے حوالے سے معلومات اکھٹی کرپاتی ہیں۔
انڈیپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے آمنہ نے بتایا کہ بچوں کے مسائل تو بہت ہیں لیکن اگر ہم کسی یتیم بچے کو صرف تعلیم دلادیں تو نہ صرف اس کی زندگی بن جائے گی بلکہ وہ خود اپنے باقی مسائل حل کرنے کے قابل بھی ہوجائے گا۔ان کا کہنا ہے کہ اسی سوچ کے تحت میں نے 2012 میں اس کام کا آغاز کیا اور اب تک اس کو جاری رکھا ہوا ہے، جس کے انتہائی مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے معاشرے میں یتیم بچوں کو زیادہ مدد کی ضرورت ہے۔ وہ یتیم بچوں کو تین مختلف طرح سے دیکھتی ہیں، وہ بچے جن کے والدین فوت ہوچکے ہیں، دوسرے وہ جن کے والدین کسی حادثے کے باعث نہیں رہے جبکہ تیسرے وہ ہیں جن کے والدین میں سے کوئی ایک زندہ ہے ،وہ ان سب کو تعلیم کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے وہ یتیم بچے کو منتخب کرتے ہیں، پھر قریب ہی کسی نجی اسکول سے رابطہ کرکے وہاں ان کا داخلہ کروا دیتے ہیں، جس کے بعد کتابوں اور یونیفارم وغیرہ پر مشتمل ان کے تمام اخراجات ادا کرتے ہیں۔
اس وقت آمنہ کے ادارے میں 120 یتیم بچے رجسٹرڈ ہیں جن کو مختلف اسکولوں میں داخل کروا کر تعلیم دی جارہی ہے۔ اس کارخیر میں آمنہ کے ساتھ 200 رضا کار بھی کام کررہے ہیں جس میں ڈاکٹر، وکیل، نوجوان اور دیگر افراد شامل ہیں جوان بچوں کی تعلیمی اخراجات پورا کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
آمنہ چاہتی ہیں کہ وہ مستقبل میں ایک ایسا ادارہ قائم کریں جس میں نہ صرف یتیم بچوں کو رہائش دی جاسکے بلکہ وہاں انہیں تعلیم کی جدید سہولیات بھی میسر ہوں۔اس مقصد کے لیے اُن کے والد نے پانچ ایکڑ اراضی بھی وقف کر رکھی ہے۔
علاوہ ازیں ، آمنہ اپنے ادارے کی طرف سے یتیموں اور بیوہ خواتین میں عید اور رمضان کے موقع پر راشن بھی تقسیم کرتی ہیں۔ اس وقت آمنہ کے پاس وسائل اور فنڈز کی کمی ہے، اس لئے وہ چاہتی ہیں کہ حکومت ان کے ساتھ تعاون کرے تاکہ وہ اپنے مشن کو جاری رکھ سکیں۔
انسانیت کے جذبے سے سرشار آمنہ شفیع کی طرح صوبہ خیبر پختونخواہ کے باہمت نوجوان حاجی محمد علی نے بھی بچوں کو تعلیم دینے کا بیڑا اٹھایا اور علاقے کی چھوٹی سی مسجد کو ہی درسگاہ بنالیا۔ محمد علی ، جو خود کوئی اعلیٰ ڈگری یافتہ نہیں لیکن اپنی محنت اور لگن سے گاؤں کے بچوں کو علم کی دولت سے روشناس کروارہے ہیں۔عرب نیوز سے گفتگو میں حاجی محمد علی نے بتایا کہ مسجد میں کھولے گئے اسکول میں فی الحال 120 بچوں ہیں، جن میں 40 لڑکیاں ہیں ، وہ اس اسکول کے واحد استاد ہیں اور تین گھنٹے کی دو شفٹوں میں پڑھتے ہیں۔
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…