آن لائن شاپنگ کی بڑی بین الاقوامی کمپنی ایمیزون نے اس بات کا عندیہ دیدیا ہے کہ پاکستان کو آئندہ چند روز میں سیلر لسٹ میں شامل کرلیا جائے گا۔ دنیا کی سب سے بڑی آن لائن مارکیٹ تک رسائی حاصل کرنے کے بعد پاکستانی فری لانسرز نے موجودہ حکومت سے رقم کی منتقلی کے پلیٹ فارم پے پال کی سروسز پاکستان میں لانے کا مطالبہ کردیا۔
ایمیزون کی سیلر لسٹ میں پاکستان کی شمولیت مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں بتاتے ہوئے کہا کہ آخر کار ہم نے یہ کرلیا، ایمیزون آئندہ چند روز میں پاکستان کو سیلر لسٹ میں شامل کرلے گا۔
انہوں نے بتایا کہ ہم گزشتہ برس سے ایمیزون کے ساتھ رابطے میں تھے اور اب یہ ہو رہا ہے مشیر تجارت نے کہا کہ یہ ہمارے نوجوانوں، چھوٹے اور درمیانے کاروبار کرنے والوں اور خواتین انٹرپرینیور کے لیے بہترین موقع ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ای کامرس کے اہم سنگ میل کو دنیا بھر میں کئی افراد کے ٹیم ورک کے ذریعے حاصل کیا گیا۔
خیال رہے کہ پڑوسی ملک بھارت میں موجود ہونے کے باوجود ایمیزون کی فہرست میں پاکستان شامل نہیں تھا۔ چنانچہ اپنی مصنوعات فروخت کرنے کے خواہشمند پاکستانی اپنی کمپنیوں کو دیگر ممالک میں رجسٹر کرواتے تھے۔ اس اعلان سے پہلے ایمیزون کی ای کامرس خدمات سے متعدد پاکستانی منسلک تھے تاہم وہ اپنے پاکستانی ایڈریس سے خود کو بطور سیلر رجسٹر نہیں کر سکتے تھے۔
تاہم اب پاکستان کی شمولیت سے پاکستانی تاجر بآسانی اس پلیٹ فارم پر اپنی مصنوعات فروخت کرسکیں گے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے پاکستانی صارفین کو فائدہ ہوگا بلکہ بیرونِ ملک اپنی اشیا فروخت کرنے کے خواہشمند پاکستانی تاجر مستفید ہوسکیں گے۔
وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے سیاسی امور شہباز گل نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اطلاع دی کہ ایمیزون نے پاکستان کو سیلر لسٹ میں شامل کر دیا ہے۔
اپنے جاری کردہ بیان میں شہباز گل کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں جو کام پچھلے 10 سال سے نہ ہوسکا وہ بالآخر موجودہ حکومت نے کر دکھایا۔
علاوہ ازیں ، پاکستان کی ایمیزون میں شمولیت کے بعد فری لانسر اور ای کامرس سے وابستہ افراد کا پے پال کی سروسز پاکستان میں لانے کا دیرینہ مطالبہ ایک بار پھر زور پکڑ گیا ہے۔
آن لائن دنیا میں پے پال کو رقم کے لین دین کے حوالے سے ایک اہم مقام حاصل ہے کیونکہ یہ ایک طرح سے کسی صارف کا ذاتی بین الاقوامی بینک اکاؤنٹ ہوتا ہے۔ کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر کے قریباً 10 کروڑ افراد معاوضے اور رقوم حاصل کرنے کے لیے یہ سروس استعمال کرتے ہیں۔ اس سروس کو قریباً دو دہائیوں سے آن لائن رقوم کی ترسیل کا اہم طریقہ مانا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں کروڑوں آن لائن شاپنگ مالز اس سروس کے گاہک ہیں۔ یہ اپنے گاہگوں سے رقم کی ترسیل کا بہت معمولی معاوضہ لیتی ہے۔
اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے پے پال کو پاکستان لانے کے عزم کا اظہار کیا تھا مگر یہ کوششیں ناکام رہی تھیں اور اور کمپنی نے حتمی طور پر حکومت کو بتا دیا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں پاکستان میں اپنی سروسز نہیں لا رہی۔
یاد رہے کہ 2019 میں ، ایک قانون ساز کمیٹی نے آگاہ کیا تھا کہ حکومت پے پال کی طرح آن لائن ادائیگی کے پلیٹ فارم کو ملک میں متعارف کرائے گی لیکن تاحال ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔ چنانچہ پاکستانی فری لانسرز جو متعدد آن لائن پلیٹ فارمز پر کام کررہے ہیں ،ان کے لئے غیر ملکی کلائنٹ سے رقم وصول کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔لہٰذا ان میں سے بہت سے لوگوں نے رقم کی منتقلی کے لئے دوسرے طریقوں کا انتخاب کیا ہوا ہے جو پاکستانی معیشت کے لئے نقصان دہ ہے۔ پے پال ، ای کامرس سے متعلق سرگرمیوں کے لئے ایک قابل ذکر آن لائن پلیٹ فارم ہے جو ریزولوشن سسٹم اور سیکیورٹی فراہم کرتا ہے اور پاکستان کو درپیش معاشی بحران میں اس کی سروسز موثر کردار ادا کرسکتی ہیں۔
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…