ہندوستان پاکستان کی تقسیم میں جہاں زمینوں کا بٹوارہ ہوا وہیں لوگوں کو بھی ہجرت پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ 92 سالہ بھارتی خاتون رینا چبر ورما (توشی آنٹی) کا تعلق بھی ایک ایسے ہی خاندان سے ہے۔ وہ جنوری 1932 میں راولپنڈی میں پیدا ہوئیں اور 1947 میں 15 برس کی عمر میں اپنے خاندان والوں کے ساتھ ہندوستان مقل مکانی کرگئیں۔ لیکن بچپن کی خوبصورت باتیں اور آبائی شہر کی یادیں ان کے دل سے نہ نکل سکیں خاص کر راولپنڈی کے گھر کی یاد نے ان کو ہمیشہ بے چین رکھا۔ بلآخر 75 سال کے بعد ان کی دلی خواہش آخر پوری ہوگئی اور وہ ایک بار اپنا آبائی گھر دیکھنے پاکستان پہنچ گئیں۔
رینا ورما کی راولپنڈی میں اپنے آبائی گھر ڈی اے وی کالج روڈ آمد پر علاقہ مکینوں نے ڈھول کی تھاپ پر رقص کیا،اس موقع پر وہ بھی جذباتی ہوگئیں اور جذبات میں ان کے آنسو نکل آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اپنا گھر بھولا نہ گلی اور دوست، کھانے بھی یاد ہیں اور بچپن کی ساری اٹھکیلیاں بھی۔رینا ورما کی آنکھوں میں پاکستان کی محبت آج بھی چمک رہی اور کہا کہ جو محبت اور اپنا پن چھوڑ کرگئی،اس سے زیادہ ملا ہے۔
اس موقع پر انہوں نے بتایا کہ ان کی برادری کے تقریبا دس خاندان آس پڑوس میں رہتے تھے، گلی میں سبھی گھر ہندوؤں کے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ساتھ والے گھر میں حضرو کا ایک خاندان آباد تھا جن کی ایک لڑکی ہیرا ان کی دوست تھی۔ تقسیم کے بعد رینا ورما کا خاندان پونے جاکر دوبارہ آباد ہوا تھا اور کوششوں کے باوجود وہ دوبارہ یہاں نہیں آسکیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نصابی کتابوں میں ہمیشہ پڑھتے رہے کہ فسادات میں مسلم خاندانوں کو کیسے نیزے میں پرویا گیا۔ لیکن یہ فسادات یک طرفہ نہیں تھے۔ ہندو اور سکھوں کو بھی ایسے ہی دنگے فسادات اور حملوں کا سامنا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ 1947 کے فروری مارچ سے راولپنڈی میں بھی فسادات شروع ہوگئے۔ اس وقت گلیوں میں باری باری پہرہ دیا جانے لگا۔ ایک گھر کے بڑے سے حصے میں پورے محلے کے لیے جگہ بنادی گئی تاکہ شرپسندوں کے حملے کے وقت سب ایک جگہ جمع ہوجائیں۔ جن گھروں میں بیٹیاں تھیں وہ لوگ بہت پریشان تھے۔
فوج کے ایک میجر صاحب انہیں اور محلے کی دیگر لڑکیوں کو فوجی کیمپ میں لے گئے چند دن بعد حالات بہتر ہونے پر گھر واپس آگئے۔ ان کا خاندان تقسیم کے اعلان سے ایک ماہ مئی 1947 میں قبل ہندوستان چلا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہم ہر سال گرمیوں کی چھٹیاں مری میں گزارتے تھے اس سال ممی پاپا نے ہمیں شملہ بھیج دیا۔ دو ماہ بعد وہ بھی ضروری سامان سمیٹ کر ہمارے پاس آگئے۔
اس دوران دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ تقسیم ہوگئی لیکن ہم سب کے وہم و گمان میں بھی کہیں یہ نہیں تھا کہ ہم واپس اپنے گھر نہیں جائیں گے۔ ممی نے ہمیں وہاں گھر نہیں لینے دیا کہ ہم واپس پنڈی اپنے گھر جائیں گے۔ ممی تو اپنا گھر چھوڑنے کا سوچ ہی نہیں سکتیں تھیں، کہتی تھیں کہ پہلے برٹش راج تھا اب مسلمانوں کو ہوگا تو کیا ہوا، تقسیم ہم سے ہمارا گھر تھوڑی چھین سکتی ہے۔لیکن پھر ماحول ایسا بن گیا کہ ہم کبھی بھی اپنے گھر واپس جا ہی نہیں سکے۔
خیال رہے کہ کچھ عرصہ قبل رینا ورما نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا کہ وہ اپنا آبائی گھر دیکھنے کی خواہش رکھتی ہیں، راولپنڈی کے ہی ایک رہائشی سجاد حیدر نے ان کا گھر ڈھونڈ نکالا اور اس کی تصاویر شیئر کیں۔ ویزہ کسی وجہ سے نہ مل سکا تو سوشل میڈیا پر دونوں جانب سے صارفین نے ایک مہم کا آغاز کردیا۔ فیس بک کے ایک گروپ انڈیا پاکستان ہیریٹیج کلب کے ممبر نے اپنے طور پر کوششیں جاری رکھیں اور انہیں ویزہ مل گیا۔
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…