ملک کی ایک اور یونیورسٹی کی جانب سے انوکھا اقدام، یونیورسٹی آنے والے طلباء خاص کر خواتین طلباء کے لئے ڈریس کوڈ جاری کردیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں پشاور یونیورسٹی کے طلباء کی جانب سے جمعہ کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، جس میں خواتین طلباء کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ یونیورسٹی اب صرف شلوار قمیض میں ہی آیا کریں گی۔
اس سلسلے میں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے دو الگ الگ نوٹیفیکیشن جاری کیے گئے۔ جمعہ کو جاری ہونے والا پہلا نوٹیفیکیشن مارچ 2013 میں جاری کردہ نوٹیفکیشن کی طرز کا ہے، جس میں خواتین طالب علموں سے کہا گیا تھا کہ وہ سفید شلوار کے ساتھ اپنی پسند سے کسی بھی رنگ قمیض پہن سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ، نئے ڈریس کوڈز میں خواتین طالب علموں کو ایک سفید سکارف یا دوپٹہ پہننے کی ہدایات جاری کی گئیں ہیں جبکہ ان کا یونیورسٹی کارڈ سامنے سے واضح طور پر نظر آنا چاہئے۔
آج جاری ہونے والا نوٹیفکیشن، ایک روز قبل جاری کردہ نوٹیفکیشن میں ایک سے تبدیلی کے باعث دوبارہ جاری کیا گیا کیونکہ گزشتہ ڈریس کوڈ کے نوٹیفکیشن میں اسکارف یا دوپٹہ پہنے جانے کی ہدایت شامل نہیں کی گئی تھی۔
نوٹیفکیشن میں دوسری طرف مرد طلباء کے لئے ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ یونیورسٹی محضب اور تمیز دار کپڑے پہن کر آئیں گے، جس میں ان کا یونیورسٹی آئی ڈی کارڈ واضح انداز میں نظر آنا چاہئے اگرچہ اس نوٹیفکیشن میں (موڈیسٹ) محضب کے الفاظ کی تشریح بیان نہیں کی گئی ہے۔
اس موقع پر یونیورسٹی ترجمان کا کہنا تھا کہ ڈریس کوڈ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ کیمپس میں آنے والے طلباء ڈریس کورڈ کے ذریعے ایک جیسے نظر آئیں گے جبکہ ڈریس کورڈ نافذ ہونے کے ذریعے والدین کے اوپر اضافی مالی بوجھ بھی کم ہوسکے، جبکہ جب طلباء ڈریس کورڈ کے مطابق یونیورسٹی آئیں گے تو ان میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا، سب ایک جیسے ہی لگیں گے۔
یونیورسٹی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ڈریس کوڈ طلباء کے بیچ احساس کمتری اور برتری کے عنصر کو بھی ختم کرنے کارآمد ثابت ہوگا۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے ڈریس کوڈ 8 سال پہلے متعارف کروایا گیا تھا۔
اگرچہ پرانے نوٹیفکیشن کو دوبارہ جاری کرنا خیبر پختونخوا کے گورنر ، شاہ فرمان ، جو صوبے کی تمام پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے چانسلر ہیں، لگتا ہے ان کو مطمئن کرنے کے لئے جاری کیا گیا ہے۔ وہ تمام یونیورسٹیوں بالخصوص خواتین طلبہ کے ڈریس کوڈ متعارف کروانے میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
یونیورسٹی کا دیگر اہم مسائل پر توجہ دینے کے بجائے ڈریس کوڈ کے معاملے پر توجہ مرکوز کرنا ایک حیران کن عمل ہے کیونکہ یہ قابل فکر ہے کہ اس ہی یونیورسٹی سے سال 2019 میں کرنے کا ایک واقعہ منظر عام پر آیا تھا، جس پر یونیورسٹی آف پشاور سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ اپنے پروفیسر کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزام میں عدالت میں لے گئی تھی۔
اس سے قبل جنوری میں مانسہرہ میں واقع ہزارہ یونیورسٹی نے بھی ڈریس کوڈ سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔ جس میں یونیورسٹی انتظامیہ نے، خواتین طلباء ، اور عملے کو پابند کیا تھا کہ وہ چوست جینز ، ٹائٹس اور ٹی شرٹ کی بجائے عبایا ، اسکارف اور شلوار قمیض پہنیں۔ نہ صرف یہ بلکہ کیمپس میں ضرورت سے زیادہ میک اپ ، زیورات ، اور بڑے ہینڈ بیگ لانا بھی ممنوع قرار دیا تھا۔
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…