خیبر پختونخوا میں واقع ہزارہ یونیورسٹی کا انوکھا اقدام، یونیورسٹی انتظامیہ نے طلباء، اساتذہ اور فیکلٹی کے تمام اراکین کے لئے ڈریس کورڈ جاری کردیا، جس پر یونیورسٹی انتظامیہ موقف اختیار کیا ہے کہ وہ اس بات پر فروغ دینا چاہتے ہیں کہ طلباء کپڑوں کے بنسبت پڑھائی پر زیادہ توجہ دیں۔
ہزارہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق تمام خواتین طالبات اور خواتین اسٹاف سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ چست جینز اور شرٹ کے بجائے برقعہ، اسکارف اور شلوار قمیض پہنیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس دوران انہیں بہت زیادہ میک اپ، جیولری اور بڑے بڑے ہنڈ بیگز یونیورسٹی لیکر آنے سے بھی گریز کرنا ہوگا۔
دوسری جانب ہزارہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے جاری کئے گئے نوٹیفکیشن میں مرد طلباء کے حوالے سے احکامات ہیں کہ انہیں چست جینز، شارٹس یعنی (تھری کوارٹر) ، چینیں اور چپل پہن کر آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس کے ساتھ لمبے بال اور پونیاں (چوٹیاں) باندھ کر آنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی. جبکہ تمام طلباء کو جامعہ کی حدود میں رہتے ہوئے یونیورسٹی کارڈ پہنا ضروری ہوگا۔
اس نوٹیفکیشن میں یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے اسٹاف کے لئے واضح احکامات ہیں کہ انہیں بھی صاف ستھرے اور تمیزدار پکڑے پہن کر آنے ہوگا۔ ٹیچر کے حوالے سے بات کی جائے تو انہیں اس نوٹیفکیشن کے مطابق دوران لیکچر یونیورسٹی کی طرف سے دیا گیا کالا گاؤن پہنا ضروری ہوگا اور کپڑوں کے ضابطے جو طلباء کے لئے طے کئے گئے یعنی چست جینز، شارٹس، چپلیں، کانوں کی بالیاں اور ہاتھوں میں باندھنے والی چینوں کا استعمال ان کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہوگا۔
واضح رہے گزشتہ برس 29 دسمبر کو تعلیمی کونسل کا 22 واں اجلاس یونیورسٹی کے ڈین کی زیر صدارت منعقد ہوا تھا۔ جہاں یہ عمل قابل ذکر ہے کہ تمام مذکورہ تجاویز کو اس ہی اجلاس میں منظوری دی گئی تھی، جبکہ پکڑوں سے متعلق تمام تجاویز خیبرپختونخوا (کے پی کے) کے گورنر شاہ فرمان کی ہدایت پر بنائی گئیں جوکہ صوبے کی تمام یونیورسٹی کے چانسلر ہیں۔
ہزارہ یونیورسٹی کے رجسٹرار کی جانب سے مذکورہ نوٹیفکیشن رواں مہینے یعنی 6 جنوری کو جاری کیا گیا تھا، جبکہ اس ان تمام قوائد کا اطلاق آج 11 جنوری سے کردیا گیا ہے۔
جوں ہی یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ڈریس کوڈ سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر یہ نوٹیفکیشن اس وقت سے زیر بحث بنا ہوا ہے، صارفین حیرت زدہ ہے کہ طلباء کے لئے اس طرح کے ڈریس کوڈ کا تعین کرکے یونیورسٹی انتظامیہ آخر کس قسم کے اہداف کو حاصل کرنا چاہتی ہے۔
اس ہی سلسلے میں ٹیم پڑھلو سے بات کرتے ہوئے ایک طالب علم نے بتایا کہ ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ کی طرف سے یہ ایک مضحکہ نوٹیفکیشن سامنے آیا ہے، جس میں طلباء پر سخت کوڈ عائد کیا گیا ہے۔ نیا پاکستان میں خوش آمدید جہاں یونیورسٹی نے تعلیم، تحقیق، بہتر فیکلٹی اور بہتر سہولیات کے بجائے اسٹوڈنٹ کے ڈریسنگ کو بہتر کرنے پر توجہ دی ہے۔
طالب علم نے مزید بتایا کہ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے، جب یونیورسٹی انتظامیہ نے اس طرح کے ضابطے بنائے ہیں، ماضی میں بھی یونیورسٹی انتظامیہ نے لڑکے اور لڑکیوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے پر پابندی عائد کررکھی تھی، جبکہ یونیورسٹی خود ایک مشترکہ یعنی مرد اور خواتین دونوں کی درسگاہ ہے جبکہ پروکٹروں اور اساتذہ کے ذریعے طلباء کو ہراساں کرنا یہاں کوئی نئی بات نہیں ہے۔
طالب علم نے مزید انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ ہزارہ یونیورسٹی میں گزشتہ کئی برسوں سے فن اور ثقافتی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد ہے۔ وائس چانسلر اور یونیورسٹی کے انتظامیہ ہمیشہ سے دائیں بازو کے گروہوں کے سامنے جھکے ہیں۔ ناراض طلباء کو انضباطی کمیٹی میں پیش ہونا پڑھتا ہے جبکہ گریجویٹس ہوجانے والے طلباء پر جامعہ میں داخلے پر پابندی ہے۔
خیال رہے پاکستان میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے طلباء کے کپڑوں کے حوالے سے کوئی ضابطہ تیار ہوا ہو، ایسا ماضی میں پہلے بھی کئی یونیورسٹیوں نے کیا ہے۔
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…