فروری 2020 میں کورونا وائرس کے پہلے کیس کے سامنے آنے کے بعد ملک بھر لوگوں کو مردوں کو دفنانے میں کئی احتیاطی اور مشکلات کو سامنا کرنا پڑا تھا۔
ابتداء میں کورونا وائرس کے متعلق یہ تاثر تھا کہ یہ ایک انتہائی خطرناک اور پھیلنے والی وباء ہے، کیونکہ وباء کے حوالے سے سائنسی معلومات نہ ہونے کے برابر تھی، لہذا مرض سے متاثر ہوکر انتقال کرجانے والوں کے متعلق کہا جا رہا تھا کہ وائرس متاثرین کی لاشوں میں ایکٹو رہتا تھا، چنانچہ متاثرہ افراد کے اہلخانہ میتوں کو ہاتھ لگانے میں بھی خوفزدہ تھے۔
جوں ہی وباء نے جنازے کی روائتی رسومات کو توڑا، بابل خان جتک جیسے کمیونٹی کے افراد فلاحی اور امدادی سرگرمیوں کا حصہ بنے اور مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کیا۔
پاکستان میں انفیکشن کی پہلی لہر کے بعد سے، 41 سالہ نوجوان صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں کورونا وائرس ریسکیو آپریشن کی قیادت کر رہا ہے جہاں طبی سہولیات کا بڑا فقدان ہے۔
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے بابل خان جتک نے کہا کہ میں پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا کے خوفناک آغاز کو نہیں بھول سکتا۔ “درجنوں لوگ مر رہے تھے اور ان کے خون کے رشتہ دار بھی ان کی لاشوں کو چھونے سے خوفزدہ تھے۔”
جتک خان جنہوں نے دو دہائیوں تک ایدھی فاؤنڈیشن کے لیے کام کیا،(پاکستانی خیراتی ادارہ جو دنیا کی سب سے بڑی رضاکارانہ ایمبولینس سروسز چلاتا ہے)، نے 45 افراد کی ایک سرشار ٹیم تشکیل دی جو صوبے کے دور دراز علاقوں سے کورونا وائرس کے مریضوں کو کلینک تک لے جاتی تھی اور ان لوگوں کی تدفین کرتی تھی جو دوران علاج جان کی بازی ہار جایا کرتے تھے۔
بابل خان جتک نے عرب نیوز کو بتایا کہ، “میں نے سوگوار خاندانوں کو ان کے پیاروں کی تدفین میں مدد کی جو کورونا وائرس کی وجہ سے فوت ہوئے تھے، جبکہ انہوں نے اس کا کسی قسم کا کوئی معاوضہ نہیں لیا تھا،”۔ اگرچے سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بلوچستان میں کووِڈ 19 میں مبتلا ہونے والے 35,500 افراد میں سے 377 کی موت ہوئی تھی، البتہ بابل خان جتک نے کہا کہ اس نے ذاتی طور پر 600 سے زیادہ لوگوں کی تدفین کی تھی۔
بابل خان جتک اور ان کی ٹیم نے مشکل اور خطرناک ماحول میں انتہائی بہادری کے ساتھ کیا، اس دوران وہ خود بھی دو بار کورونا وائرس کا شکار ہوئے ، تاہم صحت کے مسائل کے باوجود ہار نہ مانی اور کام کو جاری رکھا۔
اس حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ میرا کام جاری رہے گا، جب تک ملک سے اس وائرس کا مکمل خاتمہ نہیں ہو جاتا۔” اس کے گھر والوں نے اسے کئی بار کہا کہ یہ نوکری چھوڑ دو، لیکن انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
اس موقع پر بابل خان جتک کی بیٹی ماہنور نے کہا کہ “خدا نے انہیں ایک بہادر روح عطا کی ہے اور وہ ایسے نازک موڑ پر لوگوں کی خدمت کرنا نہیں چھوڑ سکتے ہیں ،”۔
دوسری جانب صوبائی محکمہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل، ڈاکٹر نور محمد قاضی نے کورونا وائرس ریسکیو آپریشن ورکرز کو ایک “نا گمان ہیرو” قرار دیا ہے، لہذا بابل جتک کے ساتھی اس کام کو اسی طرح دیکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: بل گیٹس نے پاکستانی نوجوان سکندر بزنجو کو گمنام کورونا ہیرو قرار دے دیا
ٹاسک فورس کے ایک 27 سالہ رکن عبدالرحمن کے لیے، یہ ان کے سینئر کی مثال تھی جس نے انہیں ڈیوٹی پر رہنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب میں کوویڈ 19 کے لیے مثبت آیا تو میرے خاندان نے مجھ پر نوکری چھوڑنے کے لیے بہت دباؤ ڈالا۔ “میں نے اس مقدس فرض کو ترک کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ میں نے بابل خان جتک کو میدان میں دیکھا تھا اور اس نے کس طرح لگن کے ساتھ لوگوں کی مدد کی۔”
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…