مدیحہ عابد فراڈ کیس کا معمہ حل، 16 سالہ طالب علم مرکزی ملزم قرار

انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے جہاں آج ہمارے پاس بےشمار اور لاتعداد فوائد ہیں وہیں اس انٹرنیٹ ٹیکنالوجی نے ہمارے معاشرے میں ہمارے لئے کافی نئے چیلنجز بھی پیدا کردیئے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا مسئلہ اج کل جو پیدا ہورہا ہے وہ سائبر کرائم کا ہے یعنی انٹرنیٹ کی مدد سے کسی قسم کا جرم کا ارتکاب کرنا۔ یہ جرم انسانی نفسیات کے لئے بھی کافی مختلف ہے کیونکہ وہ جس ماحول میں پلا بڑھا وہاں جرم اس نے ظاہری ہی دیکھے اور سنے تھے تاہم سائبر وہ جرم ہے جس کا انسان کو احساس دیر سے ہوتا ہے کیونکہ وہ ابتداء میں جرم کو مذاق و تفریح سمجھ رہا ہوتا ہے۔

اس ہی طرح کا ایک واقعہ لاہور میں پیش آیا جہاں ایک 16 سالہ بچہ سائبر کرائم کا مرتکب ہوا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ معروف پاکستانی ٹی اینکر پرسن مدیحہ عابد کا نام ایک جعلسازی کے معاملے سے جوڑا جانے تمام تر معاملات سوشل میڈیا سے چلائے جارہے تھے اگرچہ اینکر پرسن مدیحہ عابد تمام معاملات سے بلکل بےخبر تھیں۔ جبکہ ان کے نام بنایا گیا سوشل میڈیا اکاونٹ لوگوں سے بھتہ کا طلب کررہا تھا اور لوگوں کو دھوکہ دہی میں استعمال کیا جارہا تھا۔

بعدازاں اس معاملے کی جب تحقیقات کا آغاز ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ سوشل میڈیا اکاؤنٹ فیک یعنی جالی ہے اور اس کو ایک محض سولہ سالہ بچہ چلا رہا ہے یہی نہیں اس بچے کی جانب سے مختلف سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر اکاؤنٹ بنائے گئے تھے۔

اس تمام تر صورتحال نے اینکرپرسن مدیحہ عابد کی زندگی کو سخت مشکلات میں دھکیل دیا۔ جس پر انہوں نے لاہور میں واقع ایف آئی اے سائبر رپورٹنگ سینٹر پر رابطہ کیا اور تمام نکلی اکاؤنٹس کو بند کروانے کی درخواست کی۔ جس کے بعد ایف آئی اے سائبر رپورٹنگ کی ٹیم حرکت میں آئی اور اس واقعے میں ملوث 16 سالہ لڑکے کو رانگے ہاتھوں دھر لیا۔

تاہم اینکرپرسن مدیحہ عابد نے اس موقع پر قابل تعریف قدم اٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ نہیں چاہتی ہیں کہ وہ اس بچے کے چہرے کو منظر عام پر لائے کیونکہ اس عمل سے شاید آگے جاکر اس بچے کو اپنی تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات پیش آئیں اور وہ ایسا بالکل نہیں چاہتی ہیں وہ چاہتی ہیں کہ یہ بچہ اپنی تعلیم مکمل کرے تاکہ وہ آگے جاکر قانون پڑھے اور سمجھے اور آئندہ پھر کبھی اس طرح کی حرکتوں میں دوبارہ ملوث نہ ہوسکے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ آج ہمارے معاشرے میں بڑی تعداد میں لوگ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال کررہے، جن میں بڑی تعداد ہے بچوں کے استعمال کرنے کی، جن کی عقل و شعور کم ہوتی ہے اور وہ مذاق، مذاق میں اس طرح کے معاملات کا حصہ بن جاتے ہیں، پھر آگے چل کر ان کو اور ان کے گھر والوں کو کافی نقصان آٹھانا پڑھتا ہے۔ یہاں پر ناصرف والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں جبکہ ساتھ حکومت کو چاہئے اس طرح کے جرم کو نصابی کتب کا حصہ بنائے تاکہ بچوں کو اس جرم کی حساسیت کا جلدی اندازہ ہوسکے۔

Ahwaz Siddiqui

Recent Posts

پاکستان میں نفسیاتی تجزیے کے مستقبل کی تلاش

کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…

6 days ago

شوگر کے مریض رمضان المبارک کے روزے کیسے رکھیں؟

ماہ صیام کے دوران’ روزہ رکھنا ‘ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے لیکن روزے کے…

2 months ago

رمضان میں سوئی گیس کی ٹائمنگ کیا ہوگی؟

سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…

2 months ago

سندھ میں نویں دسویں جماعت کے امتحانات کب ہونگے؟

کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…

2 months ago

فروری میں 28 دن کیوں ہوتے ہیں؟

فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…

2 months ago

اگر مگر ؟اب کیسے پاکستان چیمپئنز ٹرافی میں رہتا ہے؟

پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…

2 months ago