تصور کریں کہ آپ کا کوئی پیارا آپ سے بچھڑ جائے اور کئی سالوں کا عرصہ گزرنے کے بعد وہ زندہ سلامت گھر واپس آجائے تو یقیناً یہ خوشی دیدنی ہوگی۔ ایبٹ آباد کے رہائشی سلیمان عرف بابو صاحب اس بات کی زندہ مثال ہیں، آج سے 47 سال پہلے ان کے آبائی گاؤں میں انہیں قتل کرنے کی افواہ پھیلائی گئی لیکن اب وہ زندہ سلامت اپنے گھر واپس آگئے ہیں۔
اردو پوائنٹ نے سلیمان عرف بابو سے ان کی کہانی جاننے کیلئے ان سے بات چیت کی۔ انہوں بتایا کیا تین اغواء کاروں نے انہیں اغواء کیا تھا ، جس جگہ سے انہیں اغواء کیا گیا تھا وہاں پر ان اغواء کاروں نے ان کی چیزیں پھینکنے کے ساتھ خون بھی پھینک دیا تھا جو پاس بہتے سمندر تک گیا تھا، اس منظر کو دیکھ کر کوئی بھی یہی سمجھتا کہ انہیں قتل کردیا گیا ہے۔
یہ کارروائی مکمل کرنے کے یہ اغواء کار انہیں بےہوش کرکے اپنے ساتھ لے گئے، جہاں بہت ساری بجری موجود تھی اور وہ وہاں مزدوری کا کام کرتے تھے۔ وہاں پر موجود لوگوں نے انہیں بتا رکھا تھا کہ انہوں نے اسے اغواء کاروں سے خریدا ہے۔ لہذا پہلے تو وہ لوگ ان کے پیر میں زنجیر ڈال کر رکھتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ انہوں نے زنجیر ڈالنا چھوڑ دی۔ ایک دن ایک پہرے دار ان کی نگرانی کر رہا تھا جبکہ باقی دو موجود نہیں تھے تو اس کی آنکھ لگ گئی بس انہوں نے یہ موقع غنیمت جانا اور وہاں سے فرار ہوگئے وہ 18 سال ان کی قید میں رہے۔
ان کے مطابق ان کے راستے میں جھاڑیاں ، پہاڑ ، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں آئیں لیکن وہ ہر مشکل کو عبور کرتے ہوئے وہ بھاگتے رہے۔ تقریباً 10 گھنٹے بھاگنے کے بعد انہیں پکی سڑک نظر آئی ، سڑک پر آئے تو ایک بس آتی دیکھائی دی تو انہوں نے بس کو روکا۔ بھاگتے رہنے کی وجہ سے ان کے کپڑے پھٹ چکے تھے اور پیروں میں بھی زخم ہوگئے تھے بس والوں نے ان کی حالت پر ترس کھاکر انہیں بٹھالیا ،یہ بس کئی گھنٹوں کی مسافت طے کر کے کراچی پہنچ گئی تو وہ وہیں اتر گئے۔
انہوں نے بتایا کہ کراچی آنےکے بعد میں نے اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کا سوچا لیکن دل میں خیال آیا کہ اتنا وقت گزر گیا ہے اب تک تو پتا نہیں کوئی زندہ بھی ہوگا یا نہیں۔ پھر انہوں نے یہی پر ملازمت ڈھونڈ لی اور کام کرنا شروع کردیا۔ اس عرصے میں ان کے مالک ان کے شرافت سے متاثر ہوئے اور انہوں نے ان کی شادی کروا دی۔ شادی کے بعد وہ سعودی عرب چلے گئے وہاں ملازمت کی ، دو حج اور کئی بار عمروں کی ادائیگی بھی کی۔ لیکن پھر ان کی بیوی کا انتقال ہوگیا اور وہ واپس پاکستان آگئے۔
پاکستان آنےکے بعد ایک دن انہوں نے اپنے گاؤں جانے کی ٹھانی ، وہ ابیٹ آباد پہنچے، اتنا طویل عرصے گزرنے کے بعد وہاں پر سب کچھ تبدیل ہوگیا تھا۔ انہوں نے وہاں موجود لوگوں سے اپنے گاؤں کے بارے میں پوچھا تو کچھ لوگ ان کے گاؤں کا نام پہچان گئے اور ان کے خاندان کے لوگوں کو اطلاع دی۔
کچھ گھنٹوں کا راستہ طے کرکے جب وہ اپنے آبائی گھر پہنچے تو سب لوگ ان کو دیکھ کر حیران ہوئے ، اہل خانہ سے انہیں معلوم ہوا کہ ان کے پانچوں بھائی فوت ہوچکے ہیں، بھابھیاں زندہ ہیں، وہ اپنے بھتیجے بھتیجیوں سے بھی ملے۔ سلیمان کی اپنے بھائیوں سے مشابہت کی وجہ سے سب بچے انہیں پہچان گئے اور اپنے چاچا کو دیکھ کر بہت زیادہ خوش ہوئے کیونکہ انہوں نے بچپن سے یہی سن رکھا تھا کہ ان کے چاچا کا قتل ہوگئے ہیں اور لاش سمندر میں بہہ گئی ہے۔چونکہ اہل خانے نے انہیں مردہ تسلیم کرلیا تھا اس لئے اغواء کے جائے وقوع پر ان کی قبر بنائی ہوئی تھی جس پر فاتحہ خوانی بھی کرتے تھے۔
Story Courtesy: Urdu Point
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…